معارف القرآن

0

بھلا تم دیکھو تو لات اور عزیٰ کو اور منات تیسرے پچھلے کو، کیا تم کو تو ملے بیٹے اور اس کو بیٹیاں، یہ بانٹا تو بہت بھونڈا، یہ سب نام ہیں جو رکھ لئے تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے، خدا نے نہیں اتاری ان کی کوئی سند، محض اٹکل پر چلتے ہیں اور جو جیوں کی امنگ ہے اور پہنچی ہے ان کو ان کے رب سے راہ کی سوجھ، کہیں آدمی کو ملتا ہے جو کچھ چاہے سو خدا کے ہاتھ میں ہے سب بھلائی پچھلی اور پہلی اور بہت فرشتے ہیں آسمانوں میں، کچھ کام نہیں آتی ان کی سفارش مگر جب حکم دے خدا جس کے واسطے چاہے اور پسند کرے، جو لوگ یقین نہیں رکھتے آخرت کا، وہ نام رکھتے ہیں فرشتوں کے زنانے نام اور اس کو اس کی کچھ خبر نہیں، محض اٹکل پر چلتے ہیں اور اٹکل کچھ کام نہ آئے ٹھیک بات میں۔
خلاصۂ تفسیر
(اے مشرکو! بعد اس کے کہ رسول کریمؐ کا ناطق بالحق و متبع للوحی ہونا ثابت ہوگیا اور آپؐ اس وحی سے توحید کا حکم فرماتے ہیں، جو کہ دلائل عقلیہ سے بھی ثابت ہے اور تم پھر بھی بتوں کی پرستش کرتے ہو تو) بھلا تم نے (کبھی ان بتوں کے مثلاً) لات اور عزی اور ایک تیسرے منات کے حال میں غور بھی کیا ہے (تاکہ تم کو معلوم ہوتا کہ وہ قابل پرستش ہیں یا نہیں، پس کلمہ فاء سے یہ فائدہ ہوا کہ آپؐ کی تنبیہ کے بعد متنبہ ہونا چاہئے تھا اور توحید کے متعلق ایک اور بات قابل غور ہے کہ تم جو ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں قرار دے کر معبود کہتے ہو تو) کیا تمہارے لئے تو بیٹے (تجویز) ہوں اور خدا کے لئے بیٹیاں (تجویز ہوں یعنی جن لڑکیوں کو تم عار و ننگ و قابل نفرت سمجھتے ہو وہ خدا کی طرف نسبت کی جاویں) اس حالت میں تو یہ بہت بے ڈھنگی تقسیم ہوئی (کہ اچھی چیز تمہارے حصے میں اور بری چیز خدا کے حصے میں، نعوذ باللہ منہ یہ بنا علی العرف فرمایا، ورنہ خدا تعالیٰ کے لئے بیٹا تجویز کرنا بھی بے ڈھنگی بات ہے) یہ (معبودات مذکورہ اصنام و ملائکہ بعقیدہ مذکورہ) نرے نام ہی نام ہیں،(یعنی یہ مسمیات خدا ہونے کی حیثیت سے کوئی موجود چیز ہی نہیں، بلکہ مثل ان اسماء کے ہیں جن کا کہیں کوئی مصداق نہ ہو) جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے (آپ ہی ) ٹھہرا لیا ہے، خدا تعالیٰ نے تو ان (کے معبود ہونے ) کی کوئی دلیل (عقلی یا نقلی) بھیجی نہیں (بلکہ) یہ لوگ (اس اعتقاد الوہیت میں) صرف بے اصل خیالات پر اور اپنے نفس کی خواہش پر (جو کہ ان بے اصل خیالات سے پیدا ہوتی ہے) چل رہے ہیں (دونوں میں فرق یہ ہوا کہ ہر عمل سے پہلے ایک عقیدہ ہوتا ہے اور ایک عزم و ارادہ جو عمل کے لئے محرک ہوتا ہے، پس دونوں سے دونوں کی طرف اشارہ ہے) حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی جانب سے (بواسطہ رسولؐ کے جو حق گو اور وحی الٰہی کے پیرو ہیں آپ سے) ہدایت (امر واقعی کی) آ چکی ہے (یعنی خود اپنے دعوے پر تو کوئی دلیل نہیں رکھتے اور اس دعوت کی تفصیل پر رسولؐ کے ذریعے سے دلیل سنتے ہیں اور پھر نہیں مانتے، یہ گفتگو تھی خدا کے سوا کسی کے معبود ہونے کے ابطال میں، آگے اس کا بیان ہے کہ تم نے جو بتوں کو اس غرض سے معبود مانا ہے کہ یہ خدا کے پاس تمہاری شفاعت کریں گے، یہ غرض بھی محض دھوکہ اور باطل ہے) (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More