پہلا حصہ
شیخ ابراہیم الحازمی (استاذ کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض) نے ایک مصری نوجوان کا ناقابل یقین سچا واقعہ بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’صابر علی احمد‘‘ اکیس سال کا نوجوان ہے، اس وقت وہ ہرم کے اسپتال میں ہے، وہ ایک خطرناک سفر کے بعد زندگی کے طرف لوٹا ہے، جس میں اس نے نہ صرف موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں، بلکہ اسے گلے لگا کر واپس پلٹا ہے۔ وہ موت کی طرف جاری اپنے سفر کو ادھورا چھوڑ کر زندگی کی طرف بھاگ آیا۔
یہ مصری نوجوان ’’جامعہ ازہر‘‘ میں سیکنڈری کی تعلیم مکمل کر کے کالج کے زرعی ڈپارٹمنٹ میں داخلہ لینے کی تیاری کر رہا تھا۔ 1992ء کو یہ مصری نوجوان ’’ہرم‘‘ شہر میں ایک نئی تعمیر ہونے والی عمارت کی ساتویں منزل پر کام کر رہا تھا، عمارت کی تعمیر ہو چکی تھی اور اب تزئین و آرائش کا کام باقی تھا (وہ اپنے آبائی پیشے کے ذریعے جو اس کو اپنے مزدور والد سے وراثت میں ملا تھا، اپنے تعلیمی اخراجات اور دیگر ضروریات زندگی کو پورا کرتا تھا)۔
دنیا میں پیش آنے والے تمام امور، اچھا یا برا، تقدیر میں لکھ دیئے گئے ہیں، ان پر ایمان لانا ہر مسلمان پر لازم ہے، حدیث میں ہے:
ترجمہ: ’’(ایمان یہ ہے کہ) تم ایمان لاؤ خدا پر… اور تقدیر پر کہ اچھی اور بری (سب اس کی طرف سے ہے۔)‘‘
اچانک اسے اپنے ارد گرد کی دنیا ڈولتی محسوس ہوئی۔ پر شکوہ عمارت ہچکولے لینے لگی۔ یوں لگتا تھا کہ اب گرنے والی ہے۔ یہ خلاف معمول زلزلے کے جھٹکے تھے۔ صابر بے انتہا بوکھلا گیا۔ نا امیدی اس کے رگ و ریشے میں سرایت کر گئی۔ اسے اپنی زندگی کے بچاؤ کا صرف ایک ہی راستہ نظر آیا کہ ساتویں منزل سے نیچے چھلانگ لگا دے اور بس۔ چناں چہ اس نے چارو ناچار یہ فیصلہ کرلیا، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ نیچے لوڈنگ مشین کے تختے میں لگی تین خونیں سلاخیں اس کے تیزی سے زمین کے طرف آتے جسم کے استقبال کے لیے اپنی تیز دھار نوکیں اٹھائے ہوئے موجود تھیں۔
تینوں سلاخیں اس کے جسم کو چیرتی ہوئی آر پار ہوگئیں، لیکن ابھی اس کی زندگی کی کچھ گھڑیاں باقی تھیں، اسے اپنے پرانے جسم اور پرانی دنیا میں ایک نئی روح اور نئی زندگی کے ساتھ جینا تھا۔ بھلا یہ کیسے ہوا؟
ہرم اسپتال کے ڈاکٹر ابراہیم فواد اپنے حافظے کی اسکرین پر محفوظ اس واقعے کے کچھ مناظر ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
ڈوبنے، جلنے اور گرجانے سے پناہ مانگنے کے لیے رسول اقدسؐ یہ دعا مانگا کرتے تھے:
ترجمہ: ’’الٰہی! میں تیری پناہ چاہتا ہوں گر کر مرنے سے، دب کر مرنے سے، ڈوب کر اور جل کر مرنے سے اور بڑھاپے سے اور پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ شیطان موت کے وقت مجھ کو بدحواس کر دے اور تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تیرے راستے میں میدان جہاد سے پیٹھ پھیر کر مروں اور پناہ چاہتا ہوں کہ میں موذی جانوروں کے ڈسنے سے مروں۔‘‘
’’ہم اسپتال کے وارڈ میں زلزلے میں زخمی ہو جانے والوں کی دیکھ بھال اور علاج معالجے میں مصروف تھے کہ اچانک میری نگاہ چند مزدوروں پر پڑی، جو ایک دروازہ نما لکڑی کے تختے کو اٹھائے اسپتال میں داخل ہوئے۔
اس تختے پر ایک نوجوان نیم مردہ حال میں پڑا تھا۔ تختے میں گڑی لوہے کی تین موٹی موٹی سلاخوں نے اس کے جسم کو روشن دان بنا دیا تھا اور جسم میں موجود چھ شگافوں سے خون ابل ابل کر بہہ رہا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ بے چارے ان موٹی سلاخوں سے اس کے جسم کو خلاصی نہ دلا سکے، لہٰذا تختے سمیت ہی یہاں لے آئے۔ یقیناً انہوں نے دانش مندی سے کام لیا تھا۔ ہمیں اس کی زندگی کی ذرا بھی امید نہیں تھی، لیکن ضابطے کی کارروائی کرنے کے لیے اسے ہم آپریشن روم لے آئے کہ شاید کوئی معجزہ رونما ہو جائے۔ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post