میں اب یہ محسوس کرنے لگی تھی کہ میں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کچھ جلدی کر دیا ہے، اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ میرے ایمان میں کوئی کمی تھی، بلکہ یہ کہ میں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جب تک میں مسلمانوں کے پورے طور واطوار باطنی اور ظاہری طور پر اپنا نہیں لیتی، تب تک اسلام لانے کا اعلان نہ کروں گی۔ مگر اس لمحے میں خاصی جذباتی ہوگئی تھی، اپنے مسلمان ہونے کا ذکر بڑے جوش اور جذبے سے کردیا۔ میرے والد بڑ بڑاتے ہوئے باہر چلے گئے، میری والدہ مجھے سمجھانے لگیں۔
’’ممی‘‘ میں نے کہا ’’جو ہونا تھا ہو چکا ہے، جو قدم بڑھا چکی ہوں وہ پیچھے نہیں ہٹا سکتی۔‘‘ میری ماں نے اور زیادہ شدت سے مجھے سمجھانا بجھانا شروع کردیا۔ میں نے ان سے کہا کہ ’’وہ وقت بلاوجہ ضائع کر رہی ہیں، میں مسلمان ہو چکی ہوں اور اب کچھ نہیں ہو سکتا۔‘‘ میری والدہ نے سوچا شاید میں ضد کر رہی ہوں یا جذباتی ہوگئی ہوں۔ انہوں نے اپنا طویل لیکچر ادھورا چھوڑا اور مجھے اکیلا چھوڑ کر چلی گئیں۔ میں مسلمان کیوں ہوئی؟ یہ بات مجھ سے کئی لوگوں نے پوچھی ہے اور میں کئی بار جواب دے چکی ہوں، اس کے باوجود میں سمجھتی ہوں کہ مجھے اس سوال کا جواب بڑے سکون اور اطمینان سے دینا چاہئے۔ میرے گھریلو حالات، امریکہ میں حبشیوں کی مجموعی حالت سے زیادہ میری معذوری اور اپاہج پن نے مجھے اسلام کی طرف راغب کیا، اس کی تفصیل بھی سن لیں۔
ایک اخبار میں کام کرنے کی وجہ سے میں ہر روز میلکم ایکس اور مسلمان ہونے والے حبشیوں کی اصلاحی تحریک کے بارے میں پڑھتی تھی، چونکہ پولیو کی وجہ سے میں معذور اور اپاہج ہو چکی تھی اور سوائے مطالعہ کے میرا اور کوئی شغل نہ تھا، اس لئے مجھ پر غور و فکر کی عادت بہت بڑھ گئی تھی، جب میں پڑھتی کہ میلکم ایکس اور اس کے رضا کار ساتھی لوگوں سے منشیات کی عادت چھڑانے میں کامیاب ہو رہے ہیں تو مجھے بڑی حیرت ہوتی، میں سمجھتی یہ صرف ایک خبر ہے، جس میں صداقت نہیں ہے، لیکن پھر میں سوچتی کہ یہ خبر کس طرح جھوٹی ہو سکتی ہے اور کس حد تک جھوٹی ہوسکتی ہے؟
میرے پاس میرے اپنے اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا، مگر اس زمانے میں، میں نے فیصلہ کرلیا کہ مجھے اسلام کے بارے میں کچھ پڑھنا چاہئے۔ میں نے کچھ کتابیں حاصل کیں اور پڑھنے لگی۔ اسلام کے بارے میں ان کتابوں نے مجھے خاصا متاثر کیا، جب میں نے یہ کتابیں پڑھ لیں تو میرے دل میں قرآن پڑھنے کا خیال پیدا ہوا اور میں نے انگریزی میں ترجمہ قرآن کا ایک نسخہ حاصل کرلیا۔ قرآن پاک کے اس ترجمے نے مجھے عجیب طرح کا روحانی سرور بخشا، جسے میں بیان نہیں کرسکتی۔ آج میں سمجھتی ہوں کہ اگر کوئی بھی شخص دلچسپی، انہماک اور لگن سے قرآن پاک کا مطالعہ کرے تو وہ اس مقدس کتاب کی حقانیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
قرآن پاک کے مطالعے نے مجھے کئی دن بے چین رکھا، میرے دل میں ایک عجیب طرح کا جذباتی مدو جزر پیدا ہو گیا تھا، جی چاہتا کہ اب میلکم ایکس سے ملوں، مگر وہ اس شہر سے بہت دور تھے۔ میں نے اخبار کے ذریعے یہ پتہ چلایا کہ یہاں ہمارے شہر میں کون سا ایسا شخص ہے جو مسلمانوں کی رہنمائی کرتا ہے، اس کا پتہ مجھے جلد ہی مل گیا، میں نے اس شخص محمد یوسف کو فون کیا اور اس سے ملاقات کے لئے وقت مانگا، دوسری طرف سے مجھے بڑی ہمدرد اور نرم آواز سنائی دی۔ محمد یوسف نے مجھے کہا کہ میں جس وقت چاہوں اسے مل سکتی ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں کل بعد دوپہر ان سے ملوں گی۔ وقت طے ہو جانے کے بعد میں نے اطمینان کا سانس لیا۔
جب میں اگلے دن محمد یوسف سے ملنے گئی تو وہ مجھے دیکھ کر کچھ پریشان ہوگیا، میں نے ان کی پریشانی کے سبب کو بھانپ لیا، وہ کسی صحت مند اور توانا لڑکی سے ملنے کی توقع رکھتے تھے، جب انہیں وہیل چیئر میں بیٹھی، حرکت سے معذور مجھ جیسی لڑکی دکھائی دی تو وہ کچھ پریشان سے ہوگئے، مگر میری مسکراہٹ اور خوشدلی نے ان کی پریشانی کو جلد ہی ختم کردیا۔
محمد یوسف میری ہی طرح حبشی تھے۔ کبھی ان کا نام جانی بیلگڈن تھا۔ اب وہ محمد یوسف جیسے خوبصورت نام کے مالک تھے، وہ اس شہر کے مسلمانوں کے سربراہ یا امام تھے، وہی مسجد میں نماز پڑھاتے اور وہی قرآنی تعلیمات کا درس دیتے تھے، وہ ہمدردی بھرے لہجے میں مجھ سے میرے بارے میں گفتگو کرتے رہے۔ باتوں باتوں میں بڑے غیر محسوس انداز میں انہوں نے مجھ سے میرے اور میرے کنبے کے بارے میں سب معلومات حاصل کرلیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ مسلمان کیوں ہوئے تھے؟ محمد یوسف مسکرا دیئے، پھر انہوں نے دھیمے سے بڑے میٹھے لہجے میں جواب دیا… ’’میں اس لئے مسلمان ہوا کہ خدا تعالیٰ کی یہ مرضی تھی کہ وہ مجھے سیدھا راستہ دکھائے۔‘‘ ان کا وہ جواب میں آج تک نہیں بھولی ہوں اور زندگی بھر نہ بھول سکوں گی، کیونکہ میں بھی یہی سجھتی ہوں کہ حق تعالیٰ جس انسان کی سیدھے راستے پر لانا چاہتا ہے، اس کے دل میں اسلام کے لئے محبت پیدا کر دیتا ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post