معارف و مسائل
سابقہ آیات میں رسول اقدسؐ کی نبوت و رسالت اور آپؐ کی وحی کے محفوظ ہونے کے دلائل کا تفصیلی ذکر تھا، ان آیات میں اس کے بالمقابل مشرکین عرب کے اس فعل کی مذمت ہے کہ انہوں نے بغیر کسی دلیل کے مختلف بتوں کو اپنا معبود و کارساز بنا رکھا ہے اور فرشتوں کو خدا تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے ہیں اور بعض روایات میں ہے کہ ان بتوں کو بھی وہ خدا تعالیٰ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔
مشرکین عرب کے بت جن کی وہ پرستش کرتے تھے، بے شمار ہیں۔ مگر ان میں سے تین زیادہ مشہور ہیں اور ان کی عبادت پر عرب کے بڑے بڑے قبائل لگے ہوئے تھے: لات، عزیٰ، منات۔ لات قبیلہ ثقیف (اہل طائف) کا بت تھا۔ عزیٰ قریش کا اور منات بنی ہلال کا۔ ان بتوں کے مقامات پر مشرکین نے بڑے بڑے شاندار مکانات بنا رکھے تھے، جن کو کعبہ کی حیثیت دیتے تھے، فتح مکہ کے بعد رسول اقدسؐ نے ان سب کو منہدم کرا دیا۔ (قرطبی ملخصاً)
قِسْمَۃٌ ضِیْزیٰ… صنوز سے مشتق ہے، جس کے معنی ظلم کرنے اور حق تلفی کرنے کے ہیں، اسی لئے حضرت ابن عباسؓ نے اس کے معنی ظالمانہ تقسیم کے کئے ہیں۔
ظن کے مختلف اقسام اور ان کے احکام:
وَاِنَّ الظَّنَّ… لفظ ظن عربی زبان میں مختلف معانی کیلئے بولا جاتا ہے، ایک معنی یہ بھی ہیں کہ بے بنیاد خیالات کو ظن کہا جاتا ہے، آیت میں یہی مراد ہے اور یہی مشرکین مکہ کی بت پرستی کا سبب تھا، اسی کے ازالے کیلئے یہ فرمایا گیا ہے، دوسرے معنی ظن کے وہ ہیں جو یقین کے بالمقابل آتے ہیں، یقین کہا جاتا ہے اس علم قطعی مطابق للواقع کو جس میں کسی شک و شبہ کی راہ نہ ہو، جیسے قرآن کریم یا احادیث متواترہ سے حاصل شدہ علم، اس کے مقابل ظن اس علم کو کہا جاتا ہے جو بے بنیاد خیالات تو نہیں، دلیل کی بنیاد پر قائم ہے، مگر یہ دلیل اس درجہ قطعی نہیں، جس میں کوئی دوسرا احتمال ہی نہ رہے، جیسے عام روایات حدیث سے ثابت ہونے والے احکام، اسی لئے قسم اول کے مسائل کو قطعیات اور یقینیات کہا جاتا ہے اور دوسری قسم کو ظنیات، اور یہ ظن شریعت میں معتبر ہے، قرآن و حدیث میں اس کے معتبر ہونے کے شواہد موجود ہیں اور تمام امت کے نزدیک واجب العمل ہے، آیت مذکورہ میں ظن کو جو ناقابل اعتبار قرار دیا ہے، اس سے مراد ظن بمعنی بے بنیاد بے دلیل خیالات ہیں، اس لئے کوئی اشکال نہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭