وقت سے پہلے موت نہیں آسکتی

0

دمشق جانے کے لیے وزیر نے میرے لیے عام راستے کی بجائے بالائی راستے کا انتخاب کیا، تاکہ میں جلد از جلد منزل تک پہنچ جاؤں۔
’’مقام ہیت‘‘ کے گورنر کو لکھ دیا کہ ایک حفاظتی دستے کے ساتھ میرے نکلنے کا بندوبست کرے، چناں چہ ’’ہیت‘‘ پہنچنے پر وہاں کے گورنر نے مختلف قبائل کے دیہاتیوں کی ایک جماعت میرے ہم راہ کر دی۔ انہیں اجرت پر حاصل کیا تھا اور میرا مکمل ساتھ دینے پر ان سے بھاری بھرکم قسمیں بھی لی تھیں، غرض کہ خوب احتیاط اور دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک حفاظتی دستہ میرے ساتھ تشکیل کردیا۔
ادھر ایک قافلہ کافی عرصے سے آگے سفر کرنے کا منتظر تھا، مگر صحرائی لٹیروں کے ڈر سے رکا ہوا تھا۔ قافلے والوں نے میری منت سماجت کی کہ انہیں میں اپنے ہم راہ لے لوں، تاکہ ان کا بھی آگے کا سفر طے ہوجائے۔ یہاں تک کہ وہ مجھے اور میرے حفاظتی دستے کو اس پر ایک معقول معاوضہ دینے پر بھی رضامند تھے۔ میں نے ان کی بات قبول کر لی اور یوں ہمارا قافلہ ایک بڑے جم غفیر کی شکل اختیار کر گیا اور چل پڑا۔ حفاظتی دستے میں میرے ہم راہ بیس محافظ تھے اور دیگر قافلے اور تاجروں میں سے بھی اچھی خاصی جماعت اسلحہ بردار تھی۔
ہم ’’ہیت‘‘ سے کوچ کرکے تین دن اور تین راتیں صحرا اور جنگل بیابانوں میں چلتے رہے۔ ہمارا سفر جاری تھا کہ ایک مقام پر ہمیں کچھ گھڑ سوار نظر آئے۔ میں نے دیہاتی محافظوں سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟
تو ان میں سے چند آدمی ان کے دیکھنے کے لیے آگے بڑھے، لیکن تھوڑی ہی دیر میں ہانپتے اور شکست خوردہ واپس ہوئے اور کہنے لگے:
’’یہ تو فلاں قبیلے کے لوگ ہیں۔ ان کے اور ہمارے قبیلے کے درمیان پرانی دشمن چلی آرہی ہے اور وہ تو عرصے سے ہماری تلاش میں تھے۔ ہم ان کے سامنے ٹھہر نہیں سکیں گے، لہٰذا مزید ہم آپ کی حفاظت کے لیے نہیں رک سکتے اور ہم معذرت خواہ ہیں، آپ اپنی حفاظت کا خود ہی بندوبست کر لیں!‘‘
یہ کہہ کر وہ لوگ اپنے گھوڑوں کو ایڑ لگا کر چلتے بنے اور ہم ہکا بکا ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ ہمیں یقین ہوگیا کہ یہ سب ان کی ملی بھگت ہے اور یہ سب آپس میں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔
میں نے قافلے والوں اور خادموں کو اکٹھا کیا۔ ان کی ہمت بڑھائی اور انہیں حوصلہ دیا اور سب کو چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم کرکے اسلحہ تاننے اور زرہ پہننے کی ہدایت کی۔ مگر ہوا وہی جس کا اندیشہ قوی ہو چکا تھا کہ مسلح غنڈوں نے ایک دائرے کی شکل میں ہمارے قافلے کو گھیر لیا۔
میں نے ساتھیوں سے کہا:
’’اگر یہ لوگ ہمارا سارا مال واسباب لے کر ہمیں اور ہماری سواریوں کو چھوڑ دیتے تو معاملہ زیادہ گھمبیر نہ تھا، کیوں کہ ہم اپنے سب کچھ ان کے حوالے کردیتے، لیکن یہ لوگ سب سے پہلے اونٹوں اور گھوڑوں پر ہاتھ صاف کرتے ہیں، لہٰذا اگر ہم نے سستی دکھائی تو اس بیابان ویرانے میں ہم بھوکے پیاسے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجائیں گے، اس لیے لڑائی کے لیے بالکل چوکس ہوجاؤ! اگر ہم انہیں شکست دینے میں کامیاب ہوگئے تو ہماری خوش قسمتی ہوگی، ورنہ سسک سسک کر مرنے سے لڑ کر مرنا بہتر ہے۔‘‘
قافلے والوں نے میری بات سے اتفاق کرلیا۔
ڈاکوؤں نے ہم پر ہلہ بول دیا۔ ہم نے لڑائی شروع کی تو دن ابھی چڑھا ہی تھا، سب لوگ بے جگری سے لڑے، یہاں تک کہ رات کی سیاہ چادر نے ہمیں جدا کردیا۔ وہ ہم پر قابو پاسکے تھے۔ ہم نے ان کے بے شمار سوار گرادیئے اور ایک بڑی تعداد ان کی زخمی بھی تھی، جب کہ وہ ہم سے ایک کیل بھی نہ چھین سکے تھے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More