عبدالمالک مجاہد
اس واقعہ کا آغاز اپریل 1985ء سے ہوتا ہے جب مراکش کا ایک ٹھیکیدار توفیق المعتوق اپنی اہلیہ کے ساتھ مراکش کے ایک شہر ’’زارونا‘‘ کے ایک بازار میں خرید و فروخت کر رہا تھا۔ توفیق المعتوق کا مراکش میں اچھا کاروبار تھا، وہ خوب صحت مند تھا۔ اس کی عمر خاصی ہو چکی تھی، مگر ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم تھا۔ جس بازار میں وہ خرید و فروخت کر رہا تھا، وہ خیموں سے بنا ہوا تھا۔ شام ہو رہی تھی اور آہستہ آہستہ بازار گاہکوں سے خالی ہو رہا تھا۔ دکاندار سارے دن کے تھکے ہوئے اپنے سامان کو سمیٹ رہے تھے۔
اس دوران معتوق نے دیکھا کہ ایک پانچ سالہ خوبصورت بچی مختلف خیموں میں داخل ہو کر کسی کو تلاش کر رہی ہے۔ وہ باری باری ایک ایک خیمے میں داخل ہوتی، خیمہ کا دروازہ اٹھاتی، اندر جھانک کر دیکھتی اور مایوس نظروں سے اگلے خیمے کی طرف چل دیتی۔
معتوق نے اپنی بیوی سے کہا: لگتا ہے یہ بچی کسی کو تلاش کر رہی ہے۔ میاں بیوی بچی کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے خیمے میں جھانکنے کے بعد بھی جب بچی کو مایوسی ہوئی تو وہ رونے لگ گئی۔ اس کی شکل سے نظر آ رہا تھا کہ اسے بھوک لگی ہوئی ہے۔
معتوق اور اس کی بیوی آگے بڑھے۔ اس سے پوچھا: تم کسے تلاش کر رہی ہو؟ میں اپنی والدہ کو ڈھونڈ رہی ہوں۔ اس نے جواب دیا۔ شاید وہ اسے جان بوجھ کر چھوڑ گئی تھی۔ اس دوران سورج غروب ہو چکا تھا۔ مغرب ہو چکی تھی۔ معتوق نے بچی کو کھانا اور پانی دیا۔ اس کی بیوی نے اسے گلے لگایا۔ اسے اس بچی کی صورت میں اپنی بیٹی نظر آئی۔
بیٹی! تمہارا نام کیا ہے؟ معتوق کی بیوی نے پوچھا۔ میرا نام رشیدہ ہے۔ وہ اس سے باتیں کرنے لگی۔ تھوڑی دیر میں بچی ان کے ساتھ مانوس ہو گئی۔ وہ ان سے باتیں کرنے لگی۔
معتوق اور اس کی بیوی مشورہ کرنے لگے کہ اس بچی کو کس کے حوالے کر کے جائیں۔ شام ہو چکی ہے۔ بازار کم و بیش خالی ہو چکا ہے۔ بچی سے پوچھا: ہمارے ساتھ چلو گی؟ وہ تو پہلے سے پناہ کی تلاش میں تھی، اسے بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا؟! اس بچی نے اپنا نام رشیدہ بتایا۔ معتوق اور اس کی بیوی رشیدہ کو لے کر مراکش اپنے گھر آ گئے۔ معتوق کی بیوی نے رشیدہ کو اپنی بیٹی بنا لیا۔ اگلے دن وہ بازار گئی، اس کے لیے عمدہ کپڑے خریدے اور اسے ایک معیاری اسکول میں داخل کروا دیا۔ اب رشیدہ اس گھر کا فرد تھی۔ وہ غیر معمولی ذہین اور خوبصورت تھی۔ یوں بھی مراکش کے لوگ بڑے خوبصورت ہوتے ہیں۔ رشیدہ اب معتوق کو اپنا باپ اور اس کی بیوی کو اپنی ماں ہی سمجھنے لگی تھی۔
رشیدہ آہستہ آہستہ بڑی ہونے لگی۔ اب وہ نویں کلاس میں چلی گئی۔ اس نے خوب قد کاٹھ نکالا۔ معتوق کی بیوی اس سے شدید محبت کرتی۔ بیٹی کی طرح خیال رکھتی۔ رشیدہ بھی معتوق اور اس کی بیوی سے خوب محبت کرتی۔ گھر کے چھوٹے چھوٹے کام کرتی، مگر وقت گزرنے کے ساتھ معتوق کا رویہ تبدیل ہوتا چلا گیا۔ وہ بلاوجہ رشیدہ کو دھمکاتا، رعب ڈالتا اور اسے بہانے بہانے سے تنگ کرتا۔ رشیدہ اس سے خوب ڈرنے لگ گئی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post