یہ امر خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ہالینڈ میں ایک گستاخ رکن پارلیمان کی جانب سے اسلام اور نبی اکرمؐ کی شان مبارکہ کی توہین پر مبنی خاکوں کے مقابلے کرانے کی کوشش کا مسئلہ اقوام متحدہ اور اٹھاون مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی میں اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ سینیٹ میں تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر شبلی فراز نے ایک قرار داد پیش کی، جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ دنیا کا کوئی مسلمان اپنے عظیم پیغمبر حضرت محمدؐ کی توہین برداشت نہیں کرسکتا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں مغربی ذہنیت سے اچھی طرح واقف ہوں۔ وہاں کے عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آزادیٔ اظہار کے نام پر کسی مذہب اور مذہبی رہنما کی تضحیک و توہین نہیں کی جاسکتی۔ یہ آزادیٔ اظہار نہیں، بدتمیزی، بے ہودگی اور اشتعال انگیزی ہے۔ دوسروں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچا کر کوئی بھی اپنے مذہب اور مذہبی پیشواؤں کا تقدس برقرار نہیں رکھ سکتا۔ نبی کریمؐ نے مسلمانوں کو تاکید کی ہے کہ وہ کسی مذہب کو برا بھلا کہیں، نہ اس کے ماننے والوں کو، یہاں تک کہ جھوٹے دیوتاؤں اور پتھر کے بتوں کے خلاف بھی کچھ کہنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ عمران خان کے مطابق مغربی ممالک کے لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ مسلمانان عالم اپنے پیارے نبیؐ سے کس قدر والہانہ عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔ وہ ناموس رسالت پر اپنی اور اپنے اہل وعیال کی جانیں قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ان کی شان میں معمولی گستاخی کوئی بے عمل اور گناہ گار مسلمان بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ اقوام مغرب اپنی اسلام دشمن حرکتوں سے مسلمانوں کو مشتعل کر کے اور ان کے جذبات بھڑکا کر عالمی امن کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے منشور میں کسی بھی انسان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی اجازت نہیں۔ یہودی اور عیسائی قومیں ہٹلر کے ہاتھوں لاکھوں یہودیوں کے قتل عام کو بڑھا چڑھا کر پیش کر کے جس طرح اپنے جذبات کا اظہار گریہ وماتم کے ذریعے کرتی ہیں، اس کا مسلمانوں کے نبی کریمؐ سے عقیدت و محبت سے کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ نئی حکومت نے اگرچہ گستاخانہ خاکوں کے مسئلے کو اقوام متحدہ، اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) اور دیگر عالمی فورمز پر اٹھانے کا عندیہ ظاہر کیا ہے، لیکن گستاخی کے مسلسل ارتکاب کی حالیہ کارروائیوں کے تناظر میں صرف احتجاج کرنا اور آواز اٹھانا کافی نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی سطح پر تمام اسلام دشمن سرگرمیوں کے خلاف بھرپور مہم چلائی جائے، جس میں تمام دینی و سیاسی جماعتیں اور فلاحی و سماجی تنظیمیں بھرپور تعاون کریں۔ مسلمانان عالم کے اتحاد کا ثبوت دیئے بغیر ان کی کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔
پہلے قدم کے طور پر پیغمبر اسلامؐ کی شان میں نازیبا کلمات اور حرکات کی اجازت دینے والے ممالک کی مصنوعات اور اشیاء کا حکومتی سطح پر بائیکاٹ کر کے ان سے تمام لین دین بند کردیا جائے۔ دوسرا ضروری قدم یہ ہونا چاہئے کہ ہالینڈ سمیت ایسے تمام ممالک سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا جائے۔ ان کے سفیر واپس بھیج کر اپنے سفیر فی الفور واپس بلا لئے جائیں۔ احتجاجی مظاہروں اور جلسے جلوسوں کے ذریعے اسلام دشمن قوتیں اپنی ناپاک حرکتوں سے باز آنے والی نہیں ہیں۔ مسلمان عددی لحاظ سے دنیا کی بڑی طاقت ہیں اور ان کی افرادی قوت اپنے علم، تجربے اور صلاحیتوں کے اعتبار سے بھی کسی ترقی یافتہ قوم سے کم نہیں۔ بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو بہت سے مغربی ممالک کی ترقی میں مسلمانوں کے سرمائے اور ہنر مند افراد نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ سب ہاتھ کھینچ لیں تو خود کو مہذب اور ترقی یافتہ اقوام کہنے والوں کو اپنے حقیقی قد کاٹھ کا اندازہ کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے، لیکن بدقسمتی سے اس کے رہنماؤں نے مسلم دنیا کی بھی قیادت کا حق ادا نہیں کیا۔ تحریک انصاف کے بارے میں ملک کے سنجیدہ حلقوں کی رائے اب تک یہ رہی ہے کہ اس کے لاابالی اور غیر ذمہ دار نوجوان رہنما و کارکنان ملک اور مسلمانوں کے کسی مسئلے پر توجہ دیں گے نہ کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیار کر سکیں گے، لیکن تحریک انصاف کے سینیٹر شبلی فراز کی جانب سے سینیٹ میں پیش کی جانے والی قرارداد کی منظوری اور وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کا مسئلہ اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر جگہوں پر اٹھانے کا اعلان نہایت حوصلہ افزا ہے۔ نئی حکومت کو اس پر ناصرف قائم رہنا چاہئے، بلکہ زبانی اعلانات سے آگے بڑھ کر جلد از جلد ٹھوس اقدامات کا آغاز بھی کردینا چاہئے۔ علاوہ ازیں ملک میں موجود ان گستاخوں کا سراغ لگا کر انہیں کیفر کردار تک پہنچانا بھی ضروری ہے، جو سوشل میڈیا میں ایک عرصے سے سرگرم ہیں۔ عمران خان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے خلاف گستاخی کا بار بار ارتکاب جہاں تشویش ناک ہے، وہیں مسلمانوں کی مجموعی ناکامی کا مظہر بھی ہے۔ شبلی فراز کی جانب سے پیش کردہ اور منظور شدہ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت اس سلسلے میں سفارتی مشینری کو حرکت میں لاکر بھرپور احتجاج کرے اور دنیا کو بتا دے کہ عالمی امن و سلامتی کا درس دینے والے دین اسلام کے پیروکاروں کی امن پسندی سے ناجائز فائدہ اٹھا کر انہیں چھیڑنے کی کوشش ہوئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ اس سے عالمی امن بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے اور دنیا شدید جانی مالی نقصانات سے دوچار ہو سکتی ہے۔ ان اندیشوں کا بنیادی سبب ایک ہی ہے کہ مسلمان اپنے اوپر ہونے والے تمام اعتراضات اور حملے برداشت کرسکتے ہیں، لیکن جہاں ناموس رسالت کے تحفظ کا معاملہ آجائے تو وہ نتائج کی پروا کئے بغیر گستاخان رسولؐ کو ٹھکانے لگانے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ نبی مکرمؐ سے عقیدت و محبت کے اس جذبے کا مقابلہ دنیا کی کوئی قوت نہیں کر سکتی۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post