میں جہاز چلانے کے دوران دس سال تک ملائیشیا کی مختلف بندرگاہوں میں جاتا رہا ہوں۔ اس کے بعد دس برس ملائیشیا کے شہر ملاکا میں رہ کر ملازمت کی ہے۔ وہ ستر اور اسّی کی دہائی تھی۔ ان ایام میں نہ تو انٹرنیٹ تھا اور نہ ہی ٹیلی فون کا آج جیسا سہل اور سستا نظام تھا کہ جب دل چاہا اپنے ملک کے دوستوں اور عزیزوں سے بات کی جا سکتی۔ ملائیشیا میں پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے کچھ لوگ ضرور رہتے تھے، لیکن وہ بھی برسوں سے یہاں مقیم تھے۔ ان کے والدین انگریز کی فوج میں سپاہی تھے اور دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد وہ یہیں ٹھہر گئے۔ کئی لوگوں نے مقامی ملئی اور چینی لڑکیوں کے ساتھ شادی کر لی اور ان کی اولاد یہاں کی تہذیب اور ثقافت میں رچ بس گئی۔ کچھ میرے ہم زبان سندھی ہندو بھی نظر آتے تھے جو مختلف شہروں میں کاروبار کرتے تھے۔ ان میں سے بعض لوگ انڈیا کی تقسیم کے وقت یہاں آئے اور دیگر تیس چالیس سال قبل ہی ملائیشیا آ گئے تھے اور اب ان کی دوسری نسل یہاں آباد ہے۔ وہ سندھی ضرور بولتے تھے، لیکن ان کے ساتھ ملک کے موجودہ حالات پر گفتگو نہیں ہو سکتی تھی۔ کیونکہ وہ بھی ہمارے مسلمان پنچابیوں اور پٹھانوں کی طرح بے خبر تھے۔ دل چاہتا تھا کہ ہمارے ملک کے لوگ انگلینڈ اور عرب ملکوں کی طرح یہاں ملائیشیا میں بھی آ کر ملازمت اور کاروبار کریں۔ اس ملک میں بھی آتے جاتے رہیں، تاکہ ان کے ساتھ میل ملاقات ہو اور اپنے ملک کے حالات پر بات چیت ہوتی رہے۔ لیکن میری موجودگی کے عرصے میں سوائے ہمارے سفارت خانے اور پی آئی اے کے آفس کے کہیں دوسری جگہ شاذ ہی کوئی پاکستانی ملازمت اور تعلیم کے سلسلے میں نظر آتا تھا۔
گو کہ ان دنوں میں ملائیشیا تعلیم کے لحاظ سے آئیڈیل ملک نہیں تھا۔ خود ملائیشیا کے طالب علم میڈیکل اور انجینئرنگ وغیرہ کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے یورپ، آسٹریلیا، امریکہ حتیٰ کہ انڈیا اور پاکستان جاتے تھے۔ اسی لئے ہمیں جہاز رانی کی تعلیم دینے کے لئے ملائیشیا کے تاریخی شہر ملاکا میں میری ٹائم اکیڈمی قائم کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ ملائیشیا کے نوجوان پاکستان، انڈیا، آسٹریلیا جانے کے بجائے اپنے ہی ملک میں تعلیم حاصل کریں۔ ستّر اور اسّی کے عشرے کے دوران میں نے اپنے کالموں میں ملائیشیا کے متعلق کثرت سے لکھا، تاکہ ہمارے ملک کے لوگوں کو ملائیشیا کی ترقی کا علم ہو سکے اور ہمارے لوگ انگلینڈ، یورپ اور عرب ملکوں کا رخ کرنے کے ساتھ اس طرف بھی آئیں۔ جہاں کا موسم بہتر ہے، امن امان ہے، عربوں اور انگریزوں کی طرح یہاں ہمیں کمتر نہیں سمجھا جاتا، بلکہ مقامی لوگ ہم غیر ملکیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان دنوں میں ہمارے ملک کے لوگوں کے دماغ پر انگلینڈ اور امریکہ چھایا ہوا تھا۔ بعد میں جب ملائیشیا میں ریڈیو، ٹی وی، کاریں، کپڑا وغیرہ تیار ہو کر امپورٹ ہونے لگا تو تب دنیا کی آنکھیں کھلیں، دنیا نے جانا کہ ملائیشیا ایک مسلمان ملک ترقی کی دوڑ میں شامل ہو گیا ہے۔
مجھے یاد ہے نوے کے ابتدائی برسوں میں عرب ملکوں اور ہمارے ہاں پاکستان میں ملائیشیا کی تیار شدہ چیزیں خریدنے کے دوران عموماً لوگ تذبذب کا شکار ہو جاتے تھے۔ ان کے خیال میں جنگلوں اور جانوروں کے حوالے سے مشہور ملک میں تیار کی جانے والی الیکٹرانک کی چیزیں کہاں پائیدار اور معیاری ہوں گی! اس معاملے میں دکانداروں کا بھی نمایاں کردار رہا ہے۔ جب خریدار کسی چیز کی قیمت میں کمی پر اصرار کرتے تو دکاندار ملائیشیا کی تیار شدہ وہی چیز دکھا کر کہتا تھا:
’’ کم قیمت میں یہ مل سکتی ہے، جو ہو بہو یہی ہے۔ بس میڈ ان ملائیشیا ہے۔‘‘
میں نے خود دیکھا ہے کہ خریدار ملائیشیا کی چیز لینے سے کتراتے تھے۔ وہ اضافی رقم ادا کر کے وہی چیز لیکن ’’میڈ ان جاپان‘‘ لیتے تھے۔ لیکن میں خاصا عرصہ ملائیشیا میں رہ چکا تھا اور جانتا تھا کہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ ملائیشیا میں تیار ہونے والی ہر چیز کا وہی اعلیٰ معیار ہے، جیسا کہ جاپان کی چیزوں کا ہے۔ ظاہر ہے جاپان اپنی کمپنیوں سیکو، نیشنل، سانیو، سونی، یاشیکا وغیرہ کا نام ہرگز بدنام نہیں کرے گا۔ وہ اپنی کمپنیوں کے نام سے وابستہ ہر چیز اسی ملک سے تیار کرائے گا، جو اس کے مطلوبہ معیار پر پورا اترے گا۔ ملائیشیا میں رہ کر میں نے یہ بھی دیکھا کہ وہ جو چیز بھی تیار کرتے ہیں، اس کا معیار بلند رکھتے ہیں۔
جب ملائیشیا میں نیول اکیڈمی کا آغاز ہوا تو ابتدا میں ان کے طالب علم نہایت کم تعداد میں پاس ہوتے تھے۔ دوسرے جانب ان کی جہاز راں کمپنیاں دھڑا دھڑ جہاز خرید رہی تھیں۔ ہم اساتذہ اور امتحان لینے والوں نے اپنے اعلیٰ افسران سے دریافت کیا:
’’کیا آپ اس صورت میں یہ چاہتے ہیں کہ ہم اس سلسلے میں کم سختی کریں اور آپ کے اسٹوڈنٹس کو زیادہ تعداد میں پاس کریں؟‘‘
ان کا جواب سن کر مجھے حیرت ہوئی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم نرمی ہرگز نہ برتیں، تاکہ طالب زیادہ محنت کر کے اپنا معیار بہتر بنائیں اور بین الاقوامی اسٹینڈرڈ پر آ جائیں۔
ایک ملئی وزیر نے اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا: ’’اگر ہمیں آئندہ دس سال تک اپنے جہاز چلانے کے لئے غیر ملکی انجینئرز اور نیوی گیٹرز کی خدمات حاصل کرنا پڑیں تو ہم کریں گے۔ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن ایک دن جب ہمارے اپنے نوجوان تیار ہو کر یہ ذمہ داری سنبھالیں گے تو ہمیں فخر کا احساس ہو گا کہ وہ اعلیٰ معیار کی تعلیم حاصل کر کے اس قابل ہو گئے ہیں کہ اپنے جہاز خود چلا رہے ہیں‘‘۔
ملائیشیا ہماری طرح ایک زرعی ملک ہے۔ شہروں سے زیادہ دیہی علاقوں پر مشتمل سرزمین ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ ہر معاملے میں اعلیٰ معیار کو ترجیح دیتے ہیں۔ ملائیشیا میں 1980ء تک کہاں تھے بڑے تعلیمی ادارے؟ لیکن یہ ضرور تھا کہ دیہی علاقوں میں جو پرائمری اور سیکنڈری اسکول تھے، ان میں تعلیم کا معیار بہر حال بلند تھا۔ ان کے ہاں وقت کی پابندی تھی۔ ہر سبجیکٹ کی کتاب اول تا آخر پڑھائی جاتی تھی۔ سلیبس ایک ہی تھا۔ اسکول خواہ کسی گائوں کا ہو یا کوالالمپور اور جوہر بارو کا، طرز تعلیم یکساں تھا۔ اہم بات یہ کہ ہر طالب علم کا اسکول میں حاضر ہونا لازمی تھا۔
ہماری نیول اکیڈمی ملاکا شہر سے چالیس کلو میٹر دور ایک ایسے علاقے میں قائم تھی، جہاں تین طرف سمندر اور چوتھی جانب گھنا جنگل تھا۔ اس کا حدود اربعہ یوں سمجھئے جیسے ہمارے ہاں کچے کا علاقہ ہے۔ مگر میں نے دیکھا کہ وہاں کے سو فیصد طالب علم اسکول جاتے تھے، جن کے والدین ماہی گیر اور کسان تھے۔ کسی طالب علم کے کچھ دن اسکول سے غیر حاضر رہنے پر قانون کے مطابق اس کے والد کو تین دن کے لئے جیل بھیج دیا جاتا تھا۔ آج تیس برس کے بعد میں دیکھتا ہوں کہ ان دیہی علاقوں کے گائوں اور قصبوں کے وہ بچے اب ڈاکٹر، انجینئر اور سائنسدان بن چکے ہیں۔
ملاکا ضلع کے ایک ٹائون ’’مسجد تاناح‘‘ پہنچ کر مجھے دور دراز کے ایک چھوٹے سے گائون ’’کمپونگ آئرلیمائو‘‘ جانا تھا۔ میرے ساتھ میرپور خاص سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر میر عطا محمد تالپور اور ٹنڈو جام کے سعید تالپور تھے۔ ہم تنگ سے راستوں سے گزر کر اس گائوں کے مطلوبہ گھر تک پہنچ گئے، جہاں ہماری اکیڈمی کا مالی رہتا تھا۔ اس کے بچے میرے بچوں کے کلاس میٹ تھے۔ مجھے یہ سن کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ اس مالی کی ایک بیٹی بیرسٹر، دوسری کسی کالج میں پروفیسر اور بیٹا ڈاکٹر ہے!
’’ اب آپ فکر معاش سے آزاد ہو چکے ہیں۔‘‘ میں نے اپنی عمر سے بڑے مالی سے کہا۔ ’’کیونکہ آپ کے بچے کمانے لگے ہیں‘‘۔
’’میں آج بھی ان سے کچھ نہیں لیتا‘‘۔ اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ ’’بلکہ انہیں دیتا ہی ہوں‘‘۔
’’وہ کیسے ؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
اس نے بتایا کہ پانچ سال قبل ہمارے علاقے میں یہاں کے ایک وڈیرے نے الیکٹرانک سامان کی فیکٹری قائم کی ہے۔ جس میں وہ پیکنگ کا کام کرتا ہے۔
’’بس مصروفیت کی مصروفیت اور کام کا کام …! ہر مہینے تین ہزار رنگٹ مل جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ رقم اپنے پوتوں اور نواسوں کو بھی دیتا ہوں‘‘۔ اس نے بتایا۔ ملائیشیا کے تین ہزار رنگٹ ہمارے پاکستانی تقریباً 80 ہزار روپے بنتے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق ملائیشیا کی حکومت کے ساتھ ساتھ وہاں کے وڈیروں اور سیاستدانوں کی یہ بات قابل تعریف ہے کہ انہوں نے تعلیم کے علاوہ گائوں گائوں میں پختہ سڑکیں تعمیر کرا کے کارخانے قائم کر دیئے ہیں۔ جہاں گائوں کے عمر رسیدہ مرد و زن اپنی استطاعت کے مطابق کام کر کے کچھ رقم کما لیتے ہیں۔ ملائیشیا جیسے ملک میں، جہاں سبزی، پھل، چاول، آٹا، چینی وغیرہ ہمارے ہاں سے بھی سستی ہے… وہاں تین ہزار رنگٹ بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں تعلیم کی کمی اور کارخانوں کے عدم موجودگی کے سبب گائوں گوٹھوں کے غریب بوڑھے دوا وغیرہ کے لئے پریشان رہتے ہیں۔ ان کی اولاد کے پاس بھی کچھ نہیں کہ وہ خود بے روزگار ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جب ملائیشیا کو انگریزوں سے خود مختاری ملی تو یہاں برائے نام ہی میڈیکل اور انجینئرنگ کالج تھے۔ یہاں کی سب سے پرانی ’’یونیورسٹی آف ملایا‘‘ ہے اور یہ بھی 1960ء کے بعد یونیورسٹی کی حیثیت سے وجود میں آئی۔ آج دیکھا جائے تو پورے ملائیشیا میں ہر قسم کی یونیورسٹیوں کا گویا جال سا بچھا ہوا ہے۔ جگہ جگہ یونیورسٹی نظر آتی ہے۔ جن میں نہ صرف مقامی، بلکہ دنیا کے کئی ملکوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ بقول کوالالمپور کی UCSI یونیورسٹی کے ڈپٹی وائس چانسلر ہمارے شہر ہالہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر لچھمن تارا چند کے:
’’ایک زمانہ تھا جب ملائیشیا کے نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہمارے ہاں آتے تھے اور آج ہمارے ملک کے طالب علم حصول تعلیم کی غرض سے یہاں آتے ہیں‘‘۔
واقعی اس میں کوئی شک نہیں کہ ملائیشیا کی یونیورسٹیوں اور اسپتالوں میں ہر روز ہمارے طلبہ اور پروفیسرز کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے شہر ہالہ سے تعلق رکھنے والے انجینئر ڈاکٹر لیاقت میمن کی طرح کئی ایسے پاکستانی ملتے ہیں، جنہوں نے ملائیشیا کی یونیورسٹیوں سے ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی کیا ہے۔ بہر حال ایک زمانہ ایسا بھی تھا، جب ہم اپنے کسی ہم زبان اور ہم وطن سے ملنے کو ترستے تھے۔ لیکن اب ملائیشیا کے ہر شہر میں پاکستان کے مختلف شہروں اور گائوں کے ڈاکٹرز، انجینئرز اور سائنسدان نطر آتے ہیں، حتیٰ کہ ہمارے چھوٹے سے قصبہ نما شہر ہالہ سے تعلق رکھنے والے کم از کم نصف درجن افراد یہاں فروغ علم کے سلسلے میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ان میں پروفیسر لچھمن اور ڈاکٹر لیاقت کے علاوہ دل کی بیماریوں کے ماہر کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر شکیل میمن اور ڈاکٹر زینت جمالی شامل ہیں۔ ہمارے کلاس میٹ ڈاکٹر خیر محمد میمن کی صاحبزادی ارم بھی یہاں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ نہ صرف ملائیشیا کے اس حصے ویسٹ ملائیشیا میں، بلکہ ایسٹ ملائیشیا (بورنیو جزیرے) کی ریاستوں سباح اور سراواک میں بھی کئی پاکستانی موجود ہیں۔ ان میں ہمارے شہر کے ایک نوجوان آرتھو پیڈک سرجن عقیل میمن بھی ہیں۔ اگر آج کے دور میں، میں یہاں ہوتا تو کسی ہم زبان اور ہم وطن کو تلاش کرنے میں مشکل پیش نہ آتی۔ اس سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ وقت پاس کرنے یا سوشل لائف گزارنے کے لئے مجھے مقامی لوگوں سے میل جول رکھنا پڑا۔ اس طرح مجھے یہاں کی ملئی زبان، کلچر اور ثقافت کی معلومات حاصل ہوئی اور میں اپنے قارئین کے لئے اس ملک اور یہاں کے لوگوں کے بارے میں لکھ سکا۔
٭٭٭٭٭
Next Post