پاکستان اور بھارت کے درمیان برسوں پر محیط آبی تنازعات طے کرنے کے لئے بار بار دوطرفہ مذاکرات کا ڈول ڈالا جاتا ہے، لیکن ہر مرتبہ نتیجہ ناکامی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ بھارت کی ہر ممکن کوشش ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی یا اسے یکسر نظر انداز کرکے پاکستان کو آبی قلت سے دوچار کر دے۔ بھارت کی یہ کوشش دوطرفہ ہے۔ ایک طرف وہ پاکستان کی سمت میں بہہ کر آنے والے دریاؤں کا پانی روک کر پاکستان کو خشک سالی سے دوچار کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کی زرعی زمینوں کو نقصان پہنچتا ہے اور وہ خشک سالی کا شکار ہونے کے باعث گنجائش کے مطابق پیداوار دینے سے محروم ہو جاتی ہیں۔ بھارت ان دریاؤں پر بین الاقوامی اصول و قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کرلیتا ہے، جب بارشوں کا سلسلہ بند ہو جائے تو وہ پانی کے ذخائر کو استعمال کرکے اور اپنی زرعی اراضی کو سیراب کر کے خوب پیداوار حاصل کرتا ہے۔ دوسری طرف ڈیموں پر ناجائز بند تعمیر کرکے بھارت بجلی پیدا کرتا اور اس طرح اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان انیس ستمبر 1960ء کو کراچی میں سندھ طاس معاہدہ ہوا تھا، جس پر اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل ایوب خان نے اور بھارت کی جانب سے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے دستخط کئے تھے۔ یہ معاہدہ عالمی بینک کی نگرانی میں طے پایا تھا اور وہی اس کا ضامن بنا تھا۔ معاہدے کے مطابق بھارت کے مشرق میں بہنے والے تین دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی کے پانی پر بھارت کا کنٹرول تسلیم کیا گیا۔ اس طرح تین کروڑ تیس لاکھ ایکڑ فیٹ پانی بھارت کے حصے میں آیا۔ تین مغربی دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے آٹھ کروڑ ایکڑ فیٹ پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا۔ معاہدے کے دیباچے میں کہا گیا تھا کہ اس کا مقصد دونوں ملکوں کے حقوق اور ذمے داریوں کو تسلیم کرکے ان کا تحریری طور پر تعین کرنا ہے تاکہ ان کے درمیان دوستی، تعاون اور خیر سگالی کے جذبات قائم رہیں اور ان خدشات کا تدارک کیا جائے کہ بھارت وقتاً فوقتاً پاکستان کو سیلاب اور خشک سالی میں مبتلا نہ کر سکے۔ بھارت نے انگریزوں سے آزادی کے بعد کس وقت اور کس معاملے میں پاکستان کے ساتھ خیر خواہی کا مظاہرہ کیا ہے، جو وہ سندھ طاس معاہدے کے نکات پر عملدرآمد کے سلسلے میں کرتا۔ بڑی طاقتیں بھی اپنی اسلام دشمنی کی وجہ سے بھارت کی حامی اور اکثر پاکستان مخالف رہی ہیں، اس لئے ان کے دباؤ پر سندھ طاس معاہدے کا ضامن عالمی بینک بھی آبی تنازعات پر پاکستان کے مؤقف کو نظر انداز کرکے بھارت کو رعایتیں دیتا رہتا ہے۔ اس سے بھارت کے حوصلے بلند ہوتے ہیں، وہ دریاؤں پر ڈیم بنا کر پاکستان کے حصے کا پانی روکنے پر قادر ہے اور بارشوں اور سیلابوں کے دوران بند کھول کر پاکستان کے کئی علاقوں کو ڈبو کر اراضی اور مویشیوں کو شدید نقصان پہنچاتا رہتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اٹھاون سال سے جو آبی تنازعات چل رہے ہیں، انہیں طے کرنے کے لئے گزشتہ روز ایک نو رکنی وفد پھر پاکستان آیا۔ اس سے مذاکرات میں حسب معمول خیر کی کوئی امید نہیں تھی۔ چنانچہ وہ کسی نتیجے پر پہنچے بغیر واپس چلا گیا۔ پاکستان کی جانب سے کمشنر انڈس واٹر مہر علی شاہ کی سربراہی میں دس رکنی ماہرین کی ٹیم نے مذاکرات میں شرکت کی، جبکہ نو رکنی بھارتی وفد کی سربراہی پردیپ کمار سکسینہ کر رہے تھے۔ پاکستان کی جانب سے دریائے چناب پر تعمیر کئے جانے والے پکال دل اور لوئر کلنائی کے ڈیزائن، پن بجلی کی پیداوار، ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اور جھیل بھرنے پر پاکستان کی جانب پانی چھوڑنے کے طریقوں پر اعتراضات کئے گئے، جنہیں بھارتی وفد نے حسب عادت مسترد کر کے پاکستان پر زور دیا کہ وہ خود اضافی پانی ذخیرہ کرنے اور اسے وقت پڑنے پر استعمال کرنے کی صلاحیت پیدا کرے۔ یاد رہے کہ پکال دل اور لوئر کلنائی کے منصوبے دریائے چناب کے دو مختلف حصوں میں ہیں۔ بھارت نے پچھلے سال مارچ میں وعدہ کیا تھا کہ وہ ان منصوبوں کے ڈیزائن میں ترمیم کر کے پاکستان کی شکایات دور کرے گا، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے برعکس پاکستانی تحفظات کی پروا کئے بغیر اس سال مئی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک ہزار میگاواٹ کے پکال دل منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ پاکستان کو اپنی صفیں مضبوط و مستحکم کرنے اور عالمی برادری میں اپنا مقام بنانے میں آئندہ بھی نہ جانے کتنا وقت لگے، جبکہ اس دوران بڑی طاقتوں کی پشت پناہی سے بھارت اپنے پاکستان دشمن عزائم کو آگے بڑھاتے ہوئے ہمیں آبی و برقی بحرانوں سے دوچار کرتا رہے گا۔ پاکستان میں سیلابوں کی تباہ کاریوں اور پانی کی بڑھتی ہوئی قلت کے پیش نظر دستیاب آبی وسائل کے بھرپور استعمال، ان میں اضافے اور چھوٹے ڈیموں کی تعمیر پر فوری توجہ دینی ہوگی، ورنہ بھارت آئندہ چل کر پاکستان پر شدید آبی حملہ کرنے کے لئے تباہی کے منصوبے تیز کرتا رہے گا۔
جوہر چورنگی کے قریب ٹوٹی پھوٹی سڑک اور گندا پانی
اہل کراچی سے ٹیکس وصول کرنے والے ادارے درجنوں کی تعداد میں ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی شہری مسائل حل کرنے کی ذمے داری قبول کرتا ہے نہ اسے کراچی والوں کی تکالیف کا کوئی احساس ہوتا ہے۔ بلدیاتی اداروں سے تو شہریوں نے کبھی کوئی امید وابستہ نہیں کی، لیکن کنٹونمنٹ کے علاقوں کا حال بھی کچھ کم ابتر نہیں ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ فیصل گلستان جوہر کے کئی علاقوں سے بھاری پراپرٹی ٹیکس وغیرہ وصول کرتا ہے۔ اس کے دائرئہ کار والے فوجی علاقے صفائی ستھرائی کے اعلیٰ نمونے نظر آتے ہیں، لیکن سول علاقوں سے اس کی بے اعتنائی کی ایک مثال یہ ہے کہ اس کی جانب سے لگائے فلٹر پلانٹ سے حاصل شدہ پانی میں کیڑے تیرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گلستان جوہر کی مشہور جوہر چورنگی پر واقع پارک کے سامنے سڑک پر گٹر ہر وقت ابلتا رہتا ہے، جس سے عام لوگوں کے علاوہ یہاں واقع دو بڑے اسکولوں کے بچے شدید عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔ آگے مسجد عثمان غنیؓ کو جانے والے دونوں راستوں پر آئے دن گٹر کا پانی جمع رہتا ہے۔ کسی کام کے لئے CBF والوں نے ڈیڑھ دو سال پہلے جو سڑک توڑی تھی، اس کی مرمت آج تک نہیں کی گئی۔ ٹوٹی پھوٹی سڑک اور اس پر ہر وقت بہتے ہوئے گندے پانی نے علاقے کے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قریب ہی واقع پارک میں کنٹونمنٹ بورڈ کا دفتر بھی موجود ہے، جس کے عملے کو یہ سب کچھ دکھائی دیتا تو شاید وہ اس جانب توجہ دے کر علاقے کے مکینوں کو مستقل عذاب سے نجات دلانے کی کوئی تدبیر کرتے۔
Prev Post