میں نے اسلام کیسے قبول کیا

0

ابو حسین صاحب اکثر گھر میں دعوت کا اہتمام کرتے، اس بار بہت بڑا گروپ تھا۔ حسب معمول ہم نے کھانا کھایا، کھانے کے بعد سب نوجوان آپس میں عربی زبان میں باتوں میں مشغول ہو گئے۔ وہاں میں اکیلا ایک بدھو کی طرح بیٹھا تھا۔ اس دوران مجھے اس کمرے میں ایک ٹیلی ویژن اور وی سی آر نظر آیا۔ میں اپنی کار سے علی بشیر کی عطا کردہ ویڈیو لے آیا اور اسے دیکھنا شروع کیا، وہ انگریزی زبان میں تھی۔ مہمانوں نے میری طرف کوئی توجہ نہ دی، میں ویڈیو دیکھنے میں ہمہ تن مشغول رہا۔ اس ویڈیو کا عنوان تھا:’’تمہاری زندگی کا کیا مقصد ہے، تم اسلام کے بارے میں کیا جانتے ہو؟‘‘ جب میں نے یہ عنوان دیکھا تو فی الفور سوچنے لگا کہ آخر میری زندگی کا کیا مقصد ہے؟ مجھے افسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اکثر لوگوں کی طرح میں بھی اپنی زندگی کے اصل مقصد سے بے بہرہ تھا۔
یہاں یہ ذکر کرنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ ویڈیو ایک امریکی مسلمان جناب خالد یاسین صاحب کا لیکچر تھا، جو انہوں نے جدہ کے تبلیغی مرکز میں دیا تھا۔
اس ویڈیو سے مجھے تین اہم نکات سمجھ میں آئے:
1- زندگی کا مقصد اسلام ہونا چاہیے، یعنی خالقِ حقیقی کی دل و جان سے اطاعت، یہ جواب نہ صرف فصیح و بلیغ تھا، بلکہ پورا مفہوم ایک لفظ اسلام سے ادا ہو جاتا تھا، گویا دریا ایک کوزے میں بند کر دیا گیا ہے اور اتنے مشکل سوال کے جواب کے لیے بہت سی کتابیں پڑھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
2- لفظ اسلام کا ذکر قرآن پاک میں ہے، باقی ماندہ مذاہب کے نام کا ذکر ان کی کتابوں میں مذکور نہیں۔
3- اس ویڈیو میں نہایت سادہ مثالوں سے رہبری کی گئی ہے، مثلاً خالد یاسین صاحب یہ کہہ رہے تھے کہ اگر تم عیسائی ہو اور اب اسلام قبول کرنا چاہتے ہو تو یہ ایسے ہی ہے، جیسے اگر تمہارے پاس ایک قیمتی سوٹ ہو اور وہ تمہارے جسم پر ٹھیک نہ بیٹھتا ہو تو اسے خواہ مخواہ پھینک نہیں دیتے، بلکہ اس میں کچھ تبدیلیاں کر کے قابلِ استعمال بنا لیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھنا چاہیے کہ تمہیں بچپن کے سب عقائد کو یک دم خیرباد نہیں کہنا چاہیے، بلکہ ان میں ضروری تبدیلیاں کرنے کے بعد اسلامی زندگی میں بھی استعمال کر سکتے ہو۔
ویڈیو کا مشاہدہ کرنے کے بعد میرے دل کے اوپر کا پردہ ہٹ گیا۔ مجھ پر حقیقت آشکارا ہو گئی اور میں نے سچائی کو دل و دماغ سے جان اور پہچان لیا۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے گناہوں کا انبار میرے جسم سے خارج ہو رہا ہے اور کسی ہوائی چیز کی طرح دور اڑتا چلا جا رہا ہے۔ خصوصاً میرے کندھوں کے گرد سے بوجھ بالکل ہٹ گیا اور مجھے اپنا جسم اتنا ہلکا لگنے لگا، گویا میں چھت کی طرف اڑ رہا ہوں۔
قبولِ اسلام کے لیے بے قراری:
اب میرا دل اسلام کی نعمت سے محروم رہنے کے لیے ایک لمحہ کے لیے بھی تیار نہ تھا۔ میں نے ابوحسین صاحب کو اپنی طرف بلایا اور انہیں اپنے ساتھ کمرے سے باہر لے آیا۔ میں نے ان سے بے قراری سے کہا کہ میں ابھی اور اسی وقت اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے مجھے یہ مشورہ دیا کہ مجھے فی الحال اسلام کے بارے میں مزید مطالعہ کرنا چاہیے۔ لیکن میں نے اصرار کیا کہ میں اب بغیر کسی تاخیر کے ابھی اپنے دل کو نورِ اسلام سے منور کرنا چاہتا ہوں۔ میری اس بے قراری اور اصرار پر ابوحسین صاحب مجھے ایک دوسرے کمرے میں لے گئے اور میں نے سکون سے وہاں کلمہ شہادت پڑھا۔
اب ابوحسین صاحب نے پورے گروپ میں میرے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔ لوگ حیران رہ گئے اور خوشی سے باری باری بغل گیر ہو گئے۔ مجھے یہ ہدایت کی گئی کہ گھر جا کر غسل کروں اور پھر نمازیں ادا کرنا شروع کر دوں۔ بفضلِ خدا میں نے اگلے روز صبح سے نمازیں ادا کرنا شروع کر دیں اور سجدوں میں سرور آنے لگا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More