نماز غیبی امداد کا ذریعہ بنی

0

ابو العباس بکریؒ (حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ کی اولاد میں سے ہیں) فرماتے ہیں:
مصر میں علم حدیث کے چار طالب علم (1) محمد بن جریر طبریؒ (2) محمد بن اسحاق بن خزیمہؒ (3) محمد بن نصر مروزیؒ (4) محمد بن ہارون رویانیؒ کے قافلے ایک ہی وقت میں اکھٹے ہوگئے۔ وہاں مقدر سے سب کا توشہ ختم ہو گیا اور کسی کے پاس بھی اتنی غذا نہ رہی کہ پیٹ بھر کر کھا سکے۔ بھوک نے ان کا برا حال کردیا تھا۔
ایک رات وہ سب ایک جگہ جمع ہوئے اور آپس میں اس بات پر اتفاق کیا کہ قرعہ اندازی کر لیتے ہیں، قرعہ میں جس کا نام نکل آئے وہ اپنے لیے اور اپنے ساتھیوں کے لیے لوگوں سے کھانا مانگے گا۔
قرعے میں محمد بن اسحاق بن خزیمہؒ کا نام نکل آیا۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ’’مجھے اتنی مہلت دو! جس میں وضو کر کے دو رکعت ’’نماز استخارہ‘‘ پڑھ لوں۔ (جب کسی جائز کام کے کرنے اور نہ کرنے میں تردد ہو تو ایسے موقع پر ہمیں ہمارا دین استخارہ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں اور پھر دعا مانگیں، اس کے بعد جس طرف ذہنی رجحان ہو، اس کے مطابق کام کر لیں۔ دعا یہ ہے:
ترجمہ: ’’اے اللہ میں تیرے علم کے ساتھ بھلائی اور قدرت چاہتا ہوں تیری قدرت کے ذریعے اور مانگتا ہوں تیرے فضل سے، کیوں کہ تو ہی قادر ہے، میں قادر نہیںہوں اور تو ہی جانتا ہے اور میں نہیں جانتا، تو غیب کی باتوں کا جاننے والا ہے، اے میرے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے اچھا ہے، میرے دین اور دنیا اور میرے کام کے انجام میں تو، تو اس کا میرے لیے فیصلہ فرما دے اور اگر تو سمجھتا ہے کہ یہ کام میرے لیے اچھا نہیں، میرے دین و دنیا اور میرے کام کے انجام میں تو، تو اس کو مجھ سے پھیر دے اور مجھ کو اس سے پھیر دے اور میرے لیے بھلائی مقرر کردے، جس جگہ بھی ہو، پھر مجھے اس سے خوش کر دے۔‘‘
(صحیح البخاری، الدعوات، الدعا عند الاستخارۃ:944/2)
پس وہ ادھر نماز میں مصروف ہوئے ہی تھے کہ اچانک سرکاری شمعوں کی روشنی نمودار ہوئی اور ’’والئی مصر‘‘ کا خصوصی آدمی دروازے پر موجود تھا۔ دروازے کھلے اور وہ اندر آیا۔
آتے ہی اس نے پوچھا: ’’محمد بن نصر تم میں سے کون ہے؟‘‘
بتایا گیا: ’’یہ ہیں‘‘
اس نے ایک سرکاری مہر لگی تھیلی نکالی، اس میں پچاس (50) دینار تھے اور ان کے حوالے کر دی۔
پھر پوچھا: ’’محمد بن جریر کون ہے؟‘‘
بتایا گیا: ’’یہ ہیں‘‘
انہیں بھی اس نے پچاس (50) دینار کی تھیلی دی۔
پھر پوچھا : ’’محمد بن اسحاق بن خزیمہ کون ہے؟‘‘
کہا گیا: ’’یہ رہے، نماز پڑھ رہے ہیں۔‘‘
جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو انہیں بھی پچاس (50) دینار کی تھیلی دی۔
پھر کہنے لگا: ’’امیر کو گزشتہ روز قیلولے میں ایک خیال ستانے لگا کہ تیرے شہر میں چار ’’محمد‘‘ آئے ہیں اور بھوک نے انہیں نڈھال کر دیا ہے اور وہ مخلوق کے سامنے اپنی بھوک ظاہر نہیںکررہے۔ لہٰذا جلد از جلد انہیں یہ تھیلیاں پہنچا دیں! اس لیے میں تمہارے پاس آیا ہوں۔‘‘
(راحت پانے والے، تصنیف: شیخ ابراہیم الحازمی، استاذ کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض سعودی عرب)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More