حضرت ابن مبارکؒ کا واقعہ ہے کہ ان کا بچہ فوت ہو گیا، ایک مجوسی ان کے پاس تعزیت کے لیے آیا اور کہنے لگا کہ عاقل کو چاہیے کہ آج پہلے ہی دن وہ کام اختیار کر لے جسے جاہل پانچ دن کے بعد کرے گا۔
حضرت ابن مبارکؒ نے فرمایا کہ اس کی یہ بات لکھ لو۔ مقصد یہ تھا کہ بچے کی جدائی پر ہر شخص کو طبعی غم پہنچتا ہے، لیکن اس پر بے صبری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے صبر کا دامن تھامے رکھنا چاہئے، ویسے اگر انسان ابتدا میں صبر نہ بھی کرے تو آخرکار صبر کرنا ہی پڑے گا، پہلے دن نہیں تو چند روز بعد۔ صبر کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں تو عقل مند شخص عین مصیبت کے وقت صبر کرتا ہے، جاہل ابتدا میں بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے، پھر مجبوراً صبر کرنا ہی پڑتا ہے۔
جس صبر پر انسان کو اجر ملتا ہے، وہ وہی ہے، جو عین مصیبت کے وقت ہو، یہی بات ایک حدیث میں بھی بتائی گئی ہے۔
دو شیطان
حضرت نعمان بن برزخؒ فرماتے ہیں اسود (عنسی کذاب) نے جب نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا، اس کے ساتھ دو شیطان ہوتے تھے، ایک کا نام سحیق اور دوسرے کا نام شقیق تھا، یہ دونوں شیطان لوگوں کے درمیان کے واقعات کی اس کو اطلاع کردیتے تھے (جن کے بل بوتے پر یہ لوگوں کو گمراہ کرتا اور جھوٹی نبوت چمکاتا تھا) (سنن الکبریٰ بیہقی)
امام مالک بن انسؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت زید بن اسلمؒ کو بنی سلیم کی کان کا ذمہ دار بنایا گیا، یہ کان ایسی تھی، جس میں جنات انسانوں کا شکار کرلیتے تھے، جب حضرت زید اس کے والی ہوئے تو لوگوں نے آپ سے اس کی شکایت کی تو آپ نے ان کو اذان دینے کا حکم فرمایا کہ اونچی آوازوں سے اذانیں دو، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور یہ مصیبت ٹل گئی۔ (طبقات ابن سعد)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post