کراچی میں کے الیکٹرک کی چیرہ دستی اپنے ملازمین اور صارفین سمیت شہر کے کم و بیش دو کروڑ افراد کے خلاف سالہا سال سے جاری ہے۔ مگر اس کا احتساب کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ ایک زمانہ تھا کہ واپڈا کے برعکس کے ای ایس سی نظام اتنا اچھا تھا کہ بجلی کا تعطل تو درکنار، اس میں کمی بیشی کا تصور بھی نہیں تھا۔ لوگ سکون سے زندگی گزارتے اور اپنے قیمتی آلات کو بجلی کے جھٹکوں سے محفوظ سمجھتے تھے۔ اس کے بعد بجلی کی اس کمپنی پر برا وقت آیا۔ بدعنوان، نااہل اور سفارشی لوگ اس پر مسلط ہونے لگے تو خرابیاں بتدریج بڑھنے لگیں۔ چنانچہ اصلاح کے بجائے کے ای ایس سی کو واپڈا کے حوالے کرنے اور اس کے حکام کو معاملات درست کرنے پر مامور کیا گیا۔ کئی بار فوجی افسروں کے سپرد بھی یہ کام رہا، لیکن صورت حال روز بروز مزید ابتر ہوتی چلی گئی۔ بدانتظامی اور لوٹ کھسوٹ کا نتیجہ یہ نکلا کہ سو پچاس روپے ماہانہ بجلی کا بل ادا کرنے والوں کو ہزار آٹھ سو روپے خرچ کرنے پڑے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں تو ملک بھر کے علاوہ کراچی میں بجلی کی فراہمی کا نظام اس قدر بگڑ گیا تھا کہ اٹھارہ اور بیس گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ ہونے لگی۔ یو پی ایس اور جنریٹر بھی جواب دینے لگے۔ جنریٹر سے حاصل ہونے والی بجلی جہاں بہت مہنگی تھی، وہیں جنریٹر پھٹنے سے حادثات کے باعث انسانی جانیں بھی ضائع ہونے لگیں۔ لوگوں کی شدید اذیت کے علاوہ قومی معیشت کو شدید نقصان پہنچا تو بدعنوان سیاستدانوں اور نوکر شاہی نے بجلی کا نظام نجی کمپنیوں کے سپرد کرنے کا نادر نسخہ تجویز کیا۔ آخر کار کمیشن اور کک بیکس مافیا نے ابراج کیپٹل نامی ایک غیر ملکی کمپنی کو کراچی میں بجلی کا پورا کام سونپ دیا۔ جس نے بعد میں کے الیکٹرک کے نام سے کراچی میں بجلی کی پیداوار اور تقسیم شروع کر دی۔ اس کمپنی میں سابقہ حکمران جماعتوں کی بڑی بڑی شخصیات کے حصص (شیئیرز) ہیں، جس کی وجہ سے لوٹ کھسوٹ کا وہ بازار گرم ہوا کہ بجلی گراں سے گراں تر ہوتی چلی گئی۔ تانبے کے تار بیچ کر اور گھٹیا تار لگا کر ایک طرف خوب منافع کمایا گیا تو دوسری جانب لوڈ شیڈنگ کے علاوہ بجلی کی فراہمی میں اچانک کمی بیشی کے باعث برقی آلات خراب ہونے سے صارفین کو بھاری نقصان برداشت کرنا پڑا۔ بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگا کہ کمپنی میں میرٹ کی خلاف ورزی اور اقربا پروری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت سے دیانتدار اور باصلاحیت ملازمین کو نکال کر نااہل اور سفارشی افراد بھرتی کئے گئے، جس نے کمپنی کی کارکردگی کا بالکل ہی بیڑا غرق کر دیا۔
کے الیکٹرک کی غفلت اور نااہلی کا بدترین ثبوت گزشتہ روز اہل وطن کے سامنے آیا، جب ہائی ٹینشن تاروں کی وجہ سے دو بچوں کی جان تو کسی طرح بچ گئی، لیکن ہر بچے کے دونوں ہاتھ کاٹنے پڑے۔ ان واقعات پر شرمندہ ہونے اور آئندہ بچنے کا وعدہ کرنے کے بجائے کے الیکٹرک انتظامیہ کی ڈھٹائی کے دو مزید روپ نظر آئے۔ اس نے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے سے یہ کہہ کر یکسر انکار کر دیا کہ کنڈوں کی وجہ سے یہ حادثات پیش آئے۔ گویا کنڈے ڈالنے کے ذمے دار بچے قرار پائے، جبکہ پورے شہر کو معلوم ہے کہ کے الیکٹرک اہلکاروں کی ملی بھگت سے سماج دشمن عناصر یہ کنڈے ڈالتے ہیں، جنہیں روکنے کی صوبائی حکومت کوئی کوشش کرتی ہے نہ علاقے کے لوگ کنڈوں اور غنڈوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس کا ایک نہایت افسوسناک و شرمناک پہلو یہ بھی ہے کہ جن علاقوں میں بجلی چوری دھڑلے سے ہوتی ہے، وہاں کے شریف صارفین بدترین لوڈ شیڈنگ سے اذیت میں مبتلا کئے جاتے ہیں اور بجلی چوروں کو رعایتیں دے کر ان صارفین کے بلوں میں بھی اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ کے الیکٹرک خالصتاً ایک تجارتی کمپنی ہے، جو ضرورت کے مطابق سرمایہ کاری تو نہیں کرتی، لیکن آئے دن قیمتیں بڑھاتی رہتی ہے۔ اس پر مستزاد کے الیکٹرک کی بے ایمانی کی انتہا یہ ہے کہ حکومت سے بھی اربوں روپے زرتلافی (سبسڈی) کے طور پر وصول کرتی ہے۔ یہ ساری رقم عوام کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والے سرکاری خزانے سے ادا کی جاتی ہے۔ ان کالموں میں ہم کے الیکٹرک کی اصلاح کے دو طریقے پیش کرتے رہے، جن پر حسب معمول کبھی کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔ ایک یہ کہ حکمران طبقوں، نوکر شاہی کے کارندوں اور بجلی سے ناجائز فائدہ اٹھانے والے تمام طبقات کو ایک خاص مدت کے لئے لیاری، مٹیاری اور کورنگی لانڈھی جیسے علاقوں میں رہنے پر مجبور کیا جائے تو انہیں عوام کے مصائب و مسائل کا اندازہ ہو سکے گا۔ اس کے بعد شاید وہ بجلی کا نظام درست کرنے کی جانب مائل ہو سکیں۔ دوسرے یہ کہ جو افراد عوام کو مسلسل اور شدید عذاب میں مبتلا کئے ہوئے ہیں اور جن کی وجہ سے جان و مال کو شدید خطرات لاحق رہتے ہیں، ان میں سے چند ظالموں کو اعلیٰ مناصب کی کرسیوں سے اٹھا کر بجلی کی کرسی پر بٹھا کر جھٹکے دیئے جائیں تو شاید ان کے اور دوسروں کے دماغ ٹھکانے آئیں اور وہ انسانیت کا راستہ اختیار کر لیں۔ بچوں کے ہاتھ ضائع ہونے کا معاملہ اتنا سنگین ہے کہ اس کے ذمے داروں اور کے الیکٹرک سے منافع کما کر اپنے ملکوں کو بھیجنے والوں کا سخت ترین محاسبہ کیا جائے۔ نرمی اور شرافت سے یہ عناصر باز آنے والے نہیں۔
٭٭٭٭٭