سچے خوابوں کے سنہرے واقعات

0

سلمہ بن شبیبؒ کہتے تھے: ہم امام احمد بن حنبلؒ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک بزرگ آئے۔ ان کے ساتھ ایک طاقتور غلام تھا۔ انہوں نے سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ پھر پوچھا: تم میں احمد بن حنبل کون ہیں؟ احمد بن حنبلؒ نے کہا: میں ہوں، فرمائیے، آپ کیا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: میں چار سو فرسخ کا سفر طے کر کے آیا ہوں، میں نے خضرؑ کو خواب میں دیکھا ہے۔ انہوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ احمد بن حنبلؒ کی طرف سفر کرو۔ ان سے سوال کرو اور کہو: آپ نے اللہ عزوجل کے لیے صبر کیا تھا، اس لیے عرش کے مکین اور فرشتے آپ سے راضی ہیں۔ (البدایۃ والنہایۃ: 342/10)
’’امام احمد بن خُّز زاد انطاکی نے کہا: میں نے خواب میں دیکھا، گویا قیامت قائم ہو چکی ہے اور حق تعالیٰ جل جلالہ فیصلہ کے لیے تشریف لائے ہیں۔ عرش کے نیچے آواز دینے والے نے آواز دی: ابو عبداللہ کو داخل کرو! ابو عبداللہ کو داخل کرو! ابو عبداللہ کو داخل کرو! ابو عبد اللہ کو داخل کرو! جنت میں۔ فرماتے ہیں: میں نے اپنے قریب کھڑے ہوئے ایک فرشتے سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ اس نے کہا: یہ حضرات امام مالکؒ، امام ثوریؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد ابن حنبلؒ ہیں۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ: 342/10)
یحییٰ الجلاء سے مروی ہے کہ انہوں نے خواب میں امام احمد ابن حنبلؒ کو دیکھا کہ وہ جامع مسجد کے ایک حلقے میں اور احمد بن دائود دوسرے حلقے میں موجود ہیں۔ رسول اقدسؐ دونوں حلقوں کے درمیان تشریف فرما ہیں اور یہ آیت تلاوت فرما رہے ہیں: ’’یہی وہ لوگ ہیں، جنہیں ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا کی، پھر اگر یہ لوگ ان باتوں کا انکار کریں۔‘‘ اور اشارہ احمد بن دائود کے حلقے کی طرف کر رہے ہیں۔ پھر آپؐ نے امام احمد بن حنبلؒ کے حلقے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آیت کا یہ اگلا حصہ پڑھا:
’’تو ہم نے ان کے لیے ایسے لوگ مقرر کیے ہیں جو کسی صورت ان کا انکار کرنے والے نہیں۔‘‘(الانعام 89:6، البدایۃ والنھایۃ:324/10) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More