عصماء نامی ایک یہودی عورت حضور نبی کریمؐ کی مبارک شان میں سرعام گستاخانہ اشعار کہا کرتی تھی۔ جو مسلمانوں کے لئے ایذاء و تکلیف کا باعث تھے۔ غزوئہ بدر کے بعد اس عورت نے آپؐ کی شان اقدس میں گستاخانہ اشعار کہے۔ جنہیں سن کر حضرات صحابہ کرامؓ میں غیرت و حمیت کی آگ بھڑک اٹھی اور ایک نابینا صحابی حضرت عمیر بن عدیؓ رات کو اس ناپاک عورت کے گھر گئے۔ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اندر داخل ہوئے اور تلوار اس عورت کے جسم کے آرپار کردی اور پھر بڑی پھرتی اور تیزی سے گھر سے باہر نکل آئے۔
حضور اکرمؐ کی خدمت اقدس میں آکر ساری کارروائی سنائی تو آپؐ بہت خوش ہوئے اور فرمایا: اگر ایسے شخص کو دیکھنا چاہتے ہو، جس نے خدا اور اس کے رسولؐ کی غائبانہ مدد کی ہے تو عمیر بن عدیؓ کو دیکھ لو۔
ایک یہودی (ابو عفک) جو ایک سوبیس سال کا بوڑھا تھا، وہ حضور اکرمؐ کی شان اقدس میں گستاخانہ اشعار کہا کرتا تھا۔ لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتا اور دشمنی پر ابھارتا رہتا تھا، چنانچہ ایک دن آپؐ نے صحابہ اکرمؓ سے پوچھا کہ کون ہے جو میری عزت و ناموس کے لئے اس خبیث کا کام تمام کردے؟ یہ سن کر حضرت سالم بن عمیرؓ کھڑے ہوگئے اور آپؐ کی بارگاہ اقدس سے اجازت چاہی۔ اجازت ملنے پر آپؓ اُس خبیث النفس جہنمی کے قتل کے لئے روانہ ہوئے۔ سخت گرمی کی رات تھی۔ ابو عفک اپنے گھر میں سورہا تھا۔ حضرت سالم بن عمیرؓ اس کے کمرے میں پہنچے اور تیز تلوار اس کے جگر پر رکھ کر اس زور سے دبائی کہ جسم کو کاٹ کر بستر تک پہنچ گئی اور اس گستاخ خبیث کو واصل جہنم کیا۔
اسی طرح کعب بن اشرف ایک یہودی سردار تھا۔ یہ نبی کریمؐ کا بدترین دشمن تھا۔ آپؐ کی شان اقدس میں اکثر گستاخیاں کیا کرتا تھا، جو لوگ اس کے پاس آکر حضورؐ کی شان میں گستاخی کرتے، آپؐ کو (نعوذ باللہ) برا بھلا کہتے، انہیں وہ خوب انعام دیتا اور اگر کوئی اس کے سامنے حضورؐ کی تعریف کرتا تو اسے گھر سے ہی نکال دیتا۔ یہ خبیث شاعر بھی تھا اور آپؐ کی شان مبارک میں گستاخانہ اشعار کہا کرتا تھا۔ (حضورؐ کی گستاخی وتوہین دراصل حق تعالیٰ اور اس کے دین اسلام کی توہین ہے۔)
غزوہ بدر میں مسلمانوں کی عظیم الشاں فتح و کامیابی کے بعد یہ یہودی مشرکین مکہ کے پاس تعزیت کے لئے پہنچا اور ان کے مقتولین کی یاد میں مرثیے کہتا خود بھی روتا اور دوسروں کو بھی رلاتا تھا اور لوگوں کو مسلمانوں سے بدلہ لینے پر ابھارتا تھا۔ آخر ایک دن حضورؐ نے اعلان کروایا کہ کون ہے جو کعب بن اشرف کے قتل کی ذمہ داری لے؟ یہ سن کر ایک خدا کا ولی اور عاشق رسولؐ حضرت محمد بن مسلمہؓ نے اس کے قتل کی ذمہ داری لی۔ وہ صحابیؓ اس کعب بن اشرف کے بھانجے تھے۔ انہوں نے اپنے ساتھ چار دوسرے صحابہ کرامؓ کولیا۔ کعب بن اشرف کو قتل کرنا کوئی بچوں کا کھیل اور آسان نہ تھا۔ کیونکہ وہ مدینہ میں ایک مضبوط اور محفوظ قلعہ میں رہتا تھا جس پر ہر وقت مسلح پہرے دار ہوتے تھے۔
بہرحال انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ قوت ایمانی سے ایک کامیاب منصوبہ بنایا اور حق تعالیٰ کی مدد و نصرت سے آخر کار اسے واصل جہنم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ آپؐ نے محمد بن مسلمہؓ اور ان کے ساتھیوں کو دعا دی اور فرمایا: خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ جس نے اسلام کے خلاف اتنے بڑے فتنے اور دشمن کو پامال کیا۔ خدا تعالیٰ کی شان ماموں نے یعنی کعب بن اشرف نے جہنم کا ٹکٹ لیا اور اس کے حقیقی بھانجے یعنی حضرت محمد بن مسلمہؓ نے جنت الفردوس کا سرٹیفکیٹ حاصل کر کے جنت الفردوس میں داخل ہوگئے۔ خوب کہا کسی نے: کعبہ کو پاسبان مل گئے صنم خانے سےاسی طرح ایک اور گستاخ رسولؐ ابو رافع ناپاک یہودی تھا۔ صحابہ کرامؓ کی ایک مقدس جماعت نے اس خبیث کو واصل جہنم کرنے کی حضورؐ سے اجازت طلب کی تو آپؐ نے اجازت دے دی اور اور چھ صحابہ کرامؓ کی جماعت ترتیب دے کر حضرت عبد اللہ بن عتیکؓ کو ان پر امیر بنا دیا اور نصیحت فرمائی کہ کسی بچے اور عورت کا قتل نہ کریں۔ (تمام جہاد میں بھی مجاہدین اسلام کے لئے نبی رحمتؐ نے ہدایات فرمائی ہیں کہ بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کریں)
یہ چھ صحابہ کرامؓ کی جماعت جن میں حضرت عبد اللہ بن عتیکؓ، حضرت عبد اللہ بن انیسؓ، حضرت ابو قتادہؓ، حضرت مسعود بن سنانؓ، حضرت حارث بن ربعیؓ اور حضرت خزعی بن اسودؓ غروب آفتاب کے بعد خیبر پہنچے۔ یہیں اس گستاخ رسولؐ ابورافع کا قلعہ تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عتیکؓ نے اپنے جان نثار ساتھیوں کو ایک جگہ بٹھا کر خود قلعہ میں داخل ہوئے۔ اندر داخل ہونے کے بعد آپؓ گدھوں کے اصطبل میں چھپ گئے۔ رات کو جب سب سوگئے تو آپؓ بالائی منزل میں ابو رافع کے کمرے میں پہنچے۔ جہاں وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سورہا تھا۔ وہاں بہت اندھیرا تھا۔
چنانچہ انہوں نے ابورافع کو آواز دی، تاکہ پتہ چل جائے کہ وہ کہاںہے۔ آواز سن کر ابو رافع نے پوچھا کون ہے؟ تو انہوں نے اسی سمت تلوار کا ایک بھر پور وار کیا۔ لیکن وہ بچ گیا اور اس نے ایک زور دار چیخ ماری۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے آپؓ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر آواز بدل کر ہمدردانہ لہجے میں پوچھا ابورافع کیا ہوا؟ ابورافع نے سمجھا کہ یہ کوئی مجھے بچانے آیا ہے۔ اس نے کہا ابھی کسی نے مجھ پر حملہ کیا تھا۔ یہ آواز سن کر حضرت عبد اللہؓ اچھی طرح سمجھ گئے کہ یہ خبیث کہاں کھڑا ہے اور تاک کر درست نشانے پر ایسا وار کیا کہ ابورافع تڑپ کر وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اس لعین شیطان کو قتل کرنے کے بعد حضرت عبداللہؓ بھاگے تو سیڑھیوں پر سے گرگئے، جس کی وجہ سے آپؓ کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ یہ بڑی ہمت سے گھسٹتے ہوئے اسی حالت میں فخر دو عالمؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔
آپؐ نے ان کی ٹانگ پر ہاتھ مبارک پھیرا توٹانگ ایسے ہوگئی جیسے کبھی ٹوٹی ہی نہ تھی۔ آپؐ نے ان صحابہ کرامؓ کو بھی دعا دی جو ان کے ساتھ تھے۔ (بخاری، کتاب المغازی)
حضرات صحابہ کرامؓ کے بعد توہین رسالتؐ کرنے والوں کو غیرت ایمانی رکھنے والوں نے عبرتناک انجام تک پہنچا دیا۔
Prev Post
Next Post