آخری قسط
میرے اسلام قبول کرنے کی خبر سن کر میرے والدین کو کافی کوفت ہوئی، لیکن وہ بتدریج قدرے رواداری سے کام لینے لگے اور کہنے لگے کہ اگر تم اس سے خوش ہو تو ہم بھی تمہاری خوشی میں شریک ہیں۔
ایک بار میری بہن نے مجھے امریکہ سے سعودی عرب فون کیا اور یہ اطلاع دی کہ میری والدہ صاحبہ بہت بیمار ہیں، میں اور میری اہلیہ فی الفور امریکہ پہنچے، میں اور میری اہلیہ حسبِ استطاعت ان کی عیادت و خدمت کرتے رہے، وہ میری اہلیہ کی مخلصانہ خدمات سے بہت متاثر ہوئیں۔ ایک دن میں نے والدہ صاحبہ سے پوچھا: کیا آپ کا ایک خدا پر یقین ہے؟ وہ کہنے لگیں: ہاں، تو میں نے ان سے کہا کہ میرے ساتھ مندرجہ ذیل الفاظ عربی میں دہرائیں، یعنی انہیں کلمہ پڑھنے کو کہا، میری والدہ صاحبہ نے اسے میرے ساتھ تین بار دہرایا، پھر میں نے یہ کلمہ انگریزی میں دہرایا، یعنی خدا ایک ہے اور اس کے سوا کوئی بھی قابلِ عبادت نہیں۔ پھر ایک دن میں نے والدہ صاحبہ سے پوچھا: کیا آپ کا خدا کے پیغمبروں یعنی آدم علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام، اور محمد علیہ السلام پر ایمان ہے؟ کہنے لگیں: ہاں، تو میں نے ان سے درخواست کی کہ ایسی صورت میں آپ میرے ساتھ یہ الفاظ عربی میں دہرائیں کہ حضرت محمدؐ خدا کے رسول ہیں۔ پھر ہم نے یہی کلمہ انگریزی زبان میں دہرایا، مجھے اس بات کی بے حد خوشی ہے کہ انہوں نے یہ کلمہ بھی کم از کم دو بار دہرایا۔
ایک دن میری والدہ صاحبہ مجھ سے کہنے لگیں کہ تمہارے ماتھے سے روشنی کی بہت شعاعیں نکل رہی ہیں، میں نے انہیں وضاحت کی کہ یہ خدا تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت کرنے کے باعث ہے اور یہی روشنی قیامت کے دن پل صراط پر ہماری راہنمائی کرے گی۔ میری والدہ صاحبہ کے اس مشاہدہ کا ذکر قرآن پاک کی سورۃ الحدید میں موجود ہے۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن مومن مردوں اور مومن عورتوں کے سامنے اور دائیں طرف روشنی ٹھاٹھیں مار رہی ہو گی، جو کہ انہیں جنت کی خوشخبری دے رہی ہو گی، وہ جنت جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، یہ واقعی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
میری والدہ صاحبہ اسلام قبول کرنے کے تقریباً پانچ دن بعد اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ میں حق تعالیٰ کا بے حد ممنون ہوں، جنہوں نے میری والدہ صاحبہ کو ان کے دنیا میں آخری ایام کے دوران ہدایت سے سرفراز فرمایا اور ان کے لیے باری تعالیٰ نے اپنی رحمت کے دروازے کھول دیئے۔
یہاں یہ ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا کہ میری والدہ صاحبہ اپنی زندگی میں دل کھول کر خیرات کرتیں اور دوسروں کی ضروریات کو ذاتی ضروریات پر ترجیح دیتی تھیں۔ غالباً غربا و بے کسوں کی مدد اور صلہ رحمی ان کے کام آ گئی اور اسی کی وجہ سے انہیں ایمان کی دولت نصیب ہوئی۔
میرے باقی رشتہ دار اپنی طرزِ حیات کو نہیں بدلنا چاہتے اور وہ پرانے انداز میں ہی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہم پھر بھی ایک دوسرے کو مروّت اور احترام سے ملتے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ اس وقت نومسلم پروفیسر یحییٰ صاحب سعودی عرب کی ایک معروف یونیورسٹی میں انگریزی کی تعلیم کے لیے مامور ہیں۔ انہوں نے مختلف مذاہب کے موازنے پر ایک بہت اعلیٰ کتابچہ شائع کیا ہے، جس کا نام ہے : The Best Way to Live and Die (یعنی) جینے اور مرنے کا بہترین طریقہ۔
یہ کتابچہ وامی WAMY (World Assembly of Muslim) سعودی عرب سے مفت ملتا ہے، ان کی خواہش ہے کہ ایسی ہی اور کتابیں شائع کریں تاکہ لوگ ان کی سوچ اور تجربہ سے مستفید ہو سکیں۔ وہ مدینہ منورہ کے تبلیغی مرکز میں اعزازی طور پر کام کر رہے ہیں تاکہ نئے مسلمانوں کے ایمان کو فروغ دیں اور ان کے دلوں کو تقویت ایمانی سے سیراب کریں۔ دعا ہے کہ حق تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائیں اور انہیں اجرِ عظیم عطا فرمائیں۔ آمین۔
Prev Post
Next Post