اور یہ (مضمون بھی موسیٰ علیہ السلام کے صحیفوں میں ہے) کہ وہی غنی کرتا ہے (یعنی سرمایہ دیتا ہے) اور سرمایہ (دے کر محفوظ اور) باقی رکھتا ہے اور یہ کہ وہی مالک ہے ستارہ شعریٰ کا بھی (جس کی عبادت جاہلیت میں بعض لوگ کرتے تھے، یعنی ان تصرفات و اشیاء کا مالک بھی وہی ہے، جیسے پہلے تصرفات کا مالک وہی ہے اور اوپر کے تصرفات خود انسان کے وجود میں ہیں اور بعد کے تصرفات متعلقات انسان میں ہیں، چنانچہ مال اور ستارہ دونوں خارج ہیں اور شاید ان دو کے ذکر میں اشارہ ہو کہ جس کو تم اپنا مددگار سمجھتے ہو، اس کے رب بھی ہم ہی ہیں، پھر دوسرے کو قیامت میں اس شخص کے گمان کے موافق کیا تصرف پہنچ سکتا ہے) اور یہ (مضمون ہے) کہ اس نے قدیم قوم عاد کو (اس کے کفر کی وجہ سے) ہلاک کیا اور ثمود کو بھی کہ (ان میں سے) کسی کو باقی نہ چھوڑا اور ان سے پہلے قوم نوح (علیہ السلام) کو (ہلاک کیا) بیشک وہ سب سے بڑھ کر ظالم اور شریر تھے (کہ ساڑھے نو سو برس کی دعوت میں بھی راہ پر نہ آئے) اور (قوم لوط علیہ السلام کی) الٹی ہوئی بستیوں کو بھی پھینک مارا تھا، پھر ان بستیوں کو گھیر لیا، جس چیز نے کہ گھیر لیا (یعنی اوپر سے پتھر برسنا شروع ہوئے، پس یہ شخص اگر ان قصوں میں غور کرتا تو عذاب کفر سے ڈرتا اور بے فکر نہ ہوتا، آگے ان سب مضامین پر تفریع فرماتے ہیں کہ اے انسان جب ایسے ایسے مضامین سے تجھ کو آگاہ کیا جاتا ہے جو بوجہ ہدایت ہونے کے ہر مضمون بجائے خود ایک نعمت ربانی ہے) تو تو اپنے رب کی کون کونسی نعمت میں شک (و انکار) کرتا رہے گا (اور ان مضامین کی تصدیق کر کے منتفع نہ ہوگا) یہ (پیغمبر) بھی پہلے پیغمبروں کی طرح ایک پیغمبر ہیں (ان کو مان لو کیونکہ) وہ جلدی آنے والی چیز قریب آ پہنچی ہے (مراد قیامت ہے اور جب وہ آوے گی تو) خدا کے سوا کوئی اس کا ہٹانے والا نہیں (پس کسی کے بھروسے پر بے فکری کی گنجائش ہی نہیں) سو کیا (ایسی خوف کی باتیں سن کر بھی) تم لوگ اس کلام (الٰہی) سے تعجب کرتے اور (استہزائً) ہنستے ہو اور (خوف عذاب سے) روتے نہیں ہو اور تم (اطاعت سے) تکبر کرتے ہو سو (اس کبر و غفلت سے باز آؤ اور ان پیغمبر کی تعلیم کے مطابق) خدا کی اطاعت کرو اور (اس کی بلا شرکت) عبادت کرو (تاکہ تم کو نجات ہو)(جاری ہے)