سیدنا عباسؓ بن عبد المطلب ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیؐ کے چچا ہیں۔ آپؐ کے چچاؤں میں سے دو نے اسلام قبول کیا تھا۔ ایک سیدنا حمزہؓ جو مکی دور میں سیدنا عمرؓ سے کچھ دن پہلے مسلمان ہوئے تھے، جن کے ایمان لانے سے ان کی شہادت (غزوہ احد) تک مسلمانوں کو ایک خاص قوت اور سہارا حاصل رہا۔
دوسرے سیدنا عباسؓ ،فتح مکہ کے وقت 8 ہجری میں دولت اسلام سے ممتاز ہوئے تھے۔ بعض سیرت نگاروں کے بقول پہلے سے اسلام لاچکے تھے اور اپنے اسلام کو مخفی رکھا ہوا تھا، اس موقع پر اعلانیہ داخل اسلام ہوئے۔
آپ نہایت خوبصورت اور باوقار شخص تھے۔ عام الفیل سے تین سال قبل پیدا ہوئے۔ بچپن میں گم ہوگئے تھے تو آپ کی والدہ نثیلہ نے منت مانی کہ بیٹا مل گیا تو میں کعبہ شریف کو غلاف پہناؤں گی، چنانچہ کچھ روز میں آپ مل گئے، تب آپ کی والدہ نے کعبہ شریف کو ریشمی غلاف پہنایا۔
جنگ بدر میں کفار کی جانب سے شامل ہوئے تھے اور گرفتار ہوگئے، یہ قیدیوں میں تھے، اس رات نبی اکرمؐ کو نیند نہیں آرہی تھی۔ آپؐ سے پوچھا گیا: آقا آپ کیوں بے آرام ہیں؟
فرمایا: چچا عباس کے درد سے کراہنے کے باعث۔
ایک صحابی جلدی سے اٹھے اور جاکر ان کی رسیاں ڈھیلی کردیں۔ تب ان کا درد کم ہوا اور حضورؐ کو آرام آیا، بعدازاں فدیہ کے ساتھ رہائی پائی اور مکہ مکرمہ چلے گئے۔
فتح مکہ کے بعد سے مدینہ طیبہ میں آنحضرتؐ کے ہمراہ اچھی زندگی بسر کی۔ سیدنا عثمانؓ کی خلافت کے دوسرے سال 88 سال کی عمر میں انتقال ہوا اور جنت البقیع میں عزت و تکریم کے ساتھ دفن کئے گئے۔
آپؓ کی وفات، آپؓ کے جلیل القدر فرزند، رئیس المفسرین، سیدنا ابن عباسؓ کے لئے بہت بڑا صدمہ تھا۔ آپؓ فرماتے ہیں جب لوگ مجھ سے تعزیت کررہے تھے، اس موقع پر ایک دیہاتی شخص آیا اور اس نے ان الفاظ میں تعزیت کی:
’’اے ابن عباس! آپ صبر کا دامن نہ چھوڑیئے، ہم بھی آپ کے ہمراہ صبر کریں گے، کیونکہ رعایا کا صبر تو سردار کے صبر کے ساتھ ہی ہوتا ہے‘‘۔
’’سیدنا عباسؓ کے وصال پر صبر کرنے پر جو اجر آپ کو ملے گا، وہ عباسؓ سے بہتر ہوگا اور عباسؓ کو خدا مل گیا، وہ آپ سے بہتر ہی بہتر ہے‘‘۔
مطلب یہ کہ جب گھر کا بڑا صبر کرتا ہے تو چھوٹے بھی ازخود صبر کرتے ہیں۔ اس کے دیکھا دیکھی صبر کی فضا بن جاتی ہے۔ نیز آپ اپنے والد سیدنا عباسؓ کی خدمت کرتے اور ان کا خیال رکھتے تھے، آپ سے کہیں زیادہ مہربان ذات، رب العالمین کی ہے، جس کے ہاں وہ چلے گئے ہیں۔
سیدنا ابن عباسؓ کو تعزیت کے ان کلمات سے بہت سکون حاصل ہوا۔ آپ فرماتے ہیں کہ تعزیت کرنے والے تو بہت تھے، لیکن ان الفاظ میں اور اس خوبصورت انداز میں کسی اور نے تعزیت نہیں کی۔
(سمط النجوم العوالی، عبد الملک بن حسین الملکی، 316/1، دارالکتب العلمیہ بیروت/ احیاء علوم الدین، ابو حامد محمد الغزالی، 131/4، کتاب الصبر و الشکر، دارالمعرفہ بیروت)
Prev Post
Next Post