امت رپورٹ
اگر تحریک انصاف کی حکومت اپنے وعدے کے مطابق جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی سنجیدہ کوشش کرتی ہے تو اسٹیبلشمنٹ اس میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ حلقوں تک رسائی رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک کے پالیسی ساز صرف جنوبی پنجاب صوبے کے حق میں ہی نہیں، بلکہ ان کی خواہش ہے کہ انتظامی بنیادوں پر مزید کئی صوبے بننے چاہئیں۔ تاکہ مختلف صوبوں میں لسانی بنیادوں پر محرومیوں کو ایکسپلائٹ کر کے نفرت کی سیاست کرنے والوں کی دکانیں کسی حد تک بند کی جا سکیں، اور دوسرا یہ کہ انتظامی بنیادوں پر قائم چھوٹے صوبے کی مینجمنٹ آسان ہو جائے گی۔ اس ہی نوعیت کی ایک ڈسکشن میں موجود ذرائع کا کہنا تھا کہ پنجاب میں جنوبی پنجاب صوبے اور بہاولپور سمیت تین چار چھوٹے صوبے اور اسی طرح خیبر پختون، سندھ اور بلوچستان میں انتظامی بنیادوں پر مزید صوبے بن جاتے ہیں تو طاقت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو بھی آسانی ہو جائے گی، جنہیں اپنے کاموں کے لئے صوبوں کے دور دراز علاقوں سے سفر کر کے لاہور، کوئٹہ اور پشاور آنا پڑتا ہے۔ ان لوگوں کو اپنے علاقوں میں ہی ایڈمنسٹریشن دستیاب ہو جائے گی۔ چونکہ موجودہ آئین صرف چار صوبوں کی بات کرتا ہے، لہٰذا نئے صوبوں کے لئے آئین میں ترمیم کے لئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوگی۔ پھر اس کے لئے متعلقہ صوبوں کو بھی اپنی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے بل منظور کرانا ہوگا۔ ان آئینی ترامیم کے مرحلے کے بعد نئے صوبے کے سیکریٹریٹ، دارالحکومت، صوبائی اسمبلی اور دیگر ایڈمنسٹریشن دفاتر کے علاوہ این ایف سی ایوارڈ اور معاشی وسائل کا حل بھی نکالنا ہو گا۔ یہ تمام معاملات اتنے پیچیدہ اور یکسو توجہ کے متقاضی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر خواہش کے باوجود سیاسی حکومت اور پارٹیوں کی سپورٹ کے بغیر نئے صوبوں کا قیام قابل عمل نہیں۔ ورنہ اب تک ملک میں انتظامی بنیادوں پر مزید صوبے بن چکے ہوتے کہ اسٹیبلشمنٹ اسے ریاست کے حق میں سمجھتی ہے۔ تاہم سیاسی پارٹیوں نے نئے صوبوں کے قیام کے نعرے کو محض اپنے سیاسی مقاصد کے لئے رکھا ہوا ہے۔ اگر یہ سیاسی قیادت انسانی بنیادوں پر نئے صوبوں کے قیام پر سنجیدہ ہو جائے تو اسے اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور سپورٹ حاصل ہوگی۔ تاہم ساتھ ہی ان ذرائع کا کہنا تھا کہ اگر مستقبل میں کبھی نئے صوبے بن بھی جاتے ہیں تو کراچی کو نئے صوبے کی حیثیت دینے کے بجائے اسے میٹرو پولیٹن سٹی کے طور پر ہی برقرار رکھا جائے گا۔ کیونکہ کراچی میں ملک کے دیگر صوبوں سے لوگ بڑی تعداد میں ہجرت کر کے آباد ہوئے ہیں۔ جتنی تعداد وہاں اردو اسپیکنگ بولنے والوں کی ہے، اتنی ہی تعداد دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والوں کی آباد ہے۔ پھر یہ کہ کسی بھی صوبے میں اگر نیا صوبہ بنتا ہے تو اس کے لئے اس صوبے کی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے بل کی منظوری ضروری ہے۔ پیپلز پارٹی اور سندھ کی دیگر چھوٹی بڑی قوم پرست پارٹیاں کبھی بھی یہ بل منظور نہیں ہونے دیں گی۔واضح رہے کہ نئے صوبے کے قیام کے لئے آئین کے آرٹیکل 239 میں ترمیم کی ضرورت ہوگی۔ اس سلسلے میں قومی اسمبلی یا سینیٹ میں ایک بل پیش کرنا ہوگا۔ بعد ازاں اس بل کو پارلیمنٹ کے ان دونوں ایوانوں سے دو تہائی اکثریت سے منظور کرانا ہوگا۔ عام طور پر کوئی بھی بل توثیق کے لئے صدر مملکت کو بھیجا جاتا ہے۔ تاہم نئے صوبے سے متعلق پارلیمنٹ سے منظور کوئی بھی بل اس وقت تک صدر مملکت کو نہیں بھیجا جا سکتا جب تک اسے متعلقہ صوبے کی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے منظور نہ کر لے۔
ادھر جنوبی پنجاب سے ہی تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان نے بھی جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کا نعرہ سیاسی مقاصد کے لئے لگایا ہے۔ لہٰذا جس طرح پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی حکومتیں اس ایشو کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتی رہی ہیں، موجودہ حکومت بھی اس سے آگے نہیں بڑھے گی۔ ان ذرائع کے بقول ابھی تک حکومت نے جنوبی پنجاب صوبے سے متعلق کوئی اجلاس نہیں بلایا ہے۔ اور حیرت انگیز طور پر نئے صوبے کے وعدے پر تحریک انصاف کا حصہ بننے والے جنوبی صوبہ محاذ کے ارکان نے بھی اس سلسلے میں تاحال کوئی اصرار نہیں کیا۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کو ادراک ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی صورت میں وسطی اور شمالی پنجاب میں اس کا ووٹ بینک بری طرح متاثر ہوگا۔ اور وہاں پی ٹی آئی کے ہمدردوں اور ووٹرز میں یہ سوچ پیدا ہوگی کہ عمران خان نے ان کے صوبے کو تقسیم کر دیا۔ پی ٹی آئی جوائن کرنے والے ڈیرہ غازی کے ایک مقامی رہنما جو قبل ازیں مسلم لیگ ’’ق‘‘ اور پھر مسلم لیگ ’’ن‘‘ کا حصہ رہے، دو ٹوک انداز میں کہتے ہیں کہ اول تو تحریک انصاف جنوبی پنجاب صوبے کے حوالے سے اسمبلی میں محض قرارداد یا بل پیش کرنے سے آگے نہیں بڑھے گی، تاکہ جنوبی پنجاب میں اپنے ووٹرز کو مطمئن کیا جاسکے کہ نئے صوبے کی طرف پی ٹی آئی نے پیش رفت شروع کردی ہے۔ اور اگر بفرض محال تحریک انصاف نیا صوبہ بنانے کے لئے حقیقی طور پر آمادہ ہوجاتی ہے تو تب بھی مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور پیپلز پارٹی اس کا ساتھ نہیں دیں گی۔ جبکہ نئے صوبے کے لئے آئین میں مطلوبہ ترمیم کے لئے تحریک انصاف کو ان دونوں بڑی پارٹیوں کی سپورٹ درکار ہے۔ مقامی رہنما کے بقول تاہم یہ دونوں پارٹیاں کبھی بھی نہیں چاہیں گی کہ نئے صوبے کا کریڈٹ تحریک انصاف کی حکومت کو مل جائے اور یوں جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کا ووٹ ہمیشہ کے لئے مضبوط ہوجائے۔
پیپلز پارٹی بھی بظاہر ہمیشہ جنوبی پنجاب صوبے کی حمایت کرتی چلی آئی ہے، لیکن یہ ریکارڈ پر ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں جنوبی پنجاب صوبے کے حوالے سے مسلم لیگ ’’ق‘‘ کی جانب سے پیش کی جانے والی متعدد قراردادوں میں سے کسی ایک قرارداد کو بھی پی پی پی نے سپورٹ نہیں کیا۔ اسی طرح اپنے دور صدارت میں آصف زرداری نے اپنی پارٹی کی منشور کمیٹی کو نئے صوبے کے بارے میں سفارشات مرتب کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اس کمیٹی کا بمشکل ایک اجلاس ہی ہو پایا۔ اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں قومی اسمبلی میں پی پی پی نے جنوبی پنجاب صوبے کی قرار داد پیش کی تھی۔ لیکن خود پی پی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے صوبے کے حوالے سے قرار دادوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ قانون میں ترمیم کے لئے بل پاس کرانا ہوتا ہے، لیکن بظاہر نئے صوبے کی حامی کسی پارٹی کی حکومت نے بھی کبھی بل پیش نہیں کیا۔ جنوبی پنجاب کے عوام کو محض قرار دادیں پیش کرکے دھوکا دیا جاتا رہا۔ جب پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب صوبے سے متعلق قرار داد پیش کی تھی تو مسلم لیگ ’’ن‘‘ نے قومی اسمبلی کے سیکریٹریٹ میں جوابی قرار داد جمع کرائی تھی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ صرف ایک صوبہ نہیں بلکہ بہاولپور اور ہزارہ صوبہ بھی بنایا جائے۔ دوسری جانب ہزارہ صوبے کے حوالے سے صوابی سے تعلق رکھنے والے اے این پی کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ صرف ان کی پارٹی ہی نہیں بلکہ پشتون اکثریت والی دیگر چھوٹی بڑی پارٹیاں، جن میں اچکزئی کی پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی شامل ہے، کسی صورت صوبے کی تقسیم کے حق میں نہیں۔ رہنما کے بقول صوبے میں پانچ برس تک تحریک انصاف کی حکومت رہی اور اب دوبارہ پی ٹی آئی یہاں برسر اقتدار ہے۔ اس کے باوجود اس کی جرأت نہیں کہ ہزارہ صوبے سے متعلق کوئی بل صوبائی اسمبلی میں پیش کردے۔ کیونکہ اس پر اے این پی اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی تو احتجاج کریں گی ہی، خود کے پی کے میں تحریک انصاف کے پشتون رہنما بھی اس کا ساتھ نہیں دیں گے اور پی ٹی آئی کو صوبے میں اپنے ووٹرز اور ہمدردوں کا رد عمل کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔ کیونکہ جس طرح سندھ میں پیپلز پارٹی اور اس کی بدترین سیاسی مخالفین قوم پرست سندھی تنظیمیں صوبے کی تقسیم کے حوالے سے تمام اختلافات بھلا کر ایک پیج پر آجاتی ہیں، یہی معاملہ ہزارہ صوبے کے حوالے سے خیبرپختون میں ہے۔
Next Post