بچوں کی بینائی بچانے کیلئے چین میں ویڈیوں گیمز پر پابندی

0

سدھارتھ شری واستو
چینی حکومت نے بچوں کی بینائی بچانے کیلئے ملک بھر میں ویڈیو گیمز پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں گیمز تیار کرنے والی کمپنیوں کو ہائی ریزولیوشن ٹیکنالوجی کا استعمال ترک کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ ویڈیو گیمز کی تعداد اور ریلیز میں بھی کمی کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ چین میں پلے اسٹیشن، کمپیوٹر اور موبائل گیمز کھیلنے سے 25 فیصد بچوں کی نظریں کمزور ہو چکی ہے۔ چینی جریدے سائوتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے بتایا ہے کہ چینی وزارت مواصلات کی جانب سے آن لائن گیمز انڈسٹری کو بھیجے جانے والے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ وہ نئے گیمز کی تیاری اور ریلیز میں اس بات کا خیال رکھیں کہ گیمز کا اجرا وقفے وقفے سے کریں اور ان کی تیاری میں ہائی ریزولیوشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے گریز کریں۔ چینی حکومت نے بتایا ہے کہ ان کو ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور نیشنل ہیلتھ کمیشن کی جانب سے مسلسل شکایات مل رہی تھیں کہ ویڈیو گیمز اور اینڈرائیڈ موبائل فونز کے بے تحاشا استعمال کے سبب بچوں کی بینائی اور نفسیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ایک محتاط جائزے کے مطابق ویڈیو گیمز اور اینڈرائیڈ فونز استعمال کرنے والے 25 فیصد زیر تعلیم بچوں کی بینائی اور نفسیات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بیشتر بچے بینائی کے دن اور رات کے مسائل ’’مائیو پیا‘‘ کا شکار ہوچکے ہیں۔ جبکہ ہزاروں بچے بھینگے بھی ہوچکے ہیں، جن کی موجودہ کیفیت کو دیکھتے ہوئے چینی ماہر امراض چشم نے سفارشات پیش کی ہیں کہ چینی اسکولوں میں باقاعدہ اس بات کی تربیت دی جائے کہ والدین اور سرپرست حضرات بچوں کے ہاتھوں میں موبائل فونزاور ٹیبلٹس نہ دیں اور ان کو کمپیوٹرز پر کام کرنے کیلئے اوقات کا پابند کریں اور کوشش کی جائے کہ بچے کمپیوٹرز کا استعمال محدود تر کردیں، کیونکہ دن میں چار سے آٹھ یا اس سے بھی زیادہ گھنٹوں کیلئے گیمز کھیلنے کا معاملہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ چینی نیوز ایجنسی بائو نیوز نے بتایا ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ کا یہ فیصلہ انتہائی دور رس اور اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ بات طے شدہ ہے کہ چین دنیا بھر میں ویڈیو گیمز کی سب سے بڑی اور مستحکم مارکیٹ ہے، جہاں ہر عمر اور ذہن کے افراد کیلئے ویڈیوز گیمز موجود ہیں۔ لیکن چینی حکومت کی جانب سے کئے جانے والے سخت ترین اقدامات نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ویڈیو گیمز کی مارکیٹ پر شکنجا کسنے کیلئے تیار ہے، کیونکہ معاملہ بچوں یعنی چین کی نئی نسل کی آنکھوں کی حفاظت کا ہے۔ برطانوی جریدے گارجین نے بتایا ہے کہ حالیہ ایام میں ایک عالمی کمپیوٹر گیم ’’ایکٹو شوٹنگ‘‘ پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ کیونکہ اس گیم میں بچوں کو اسکول کے اندر فائرنگ کر کے مخالفین کو قتل کرنے کا ٹاسک دیا جاتا تھا۔ چین میں کمپیوٹر گیمز ایک قسم کی معاشرتی تفریح ہے، جس کا اجتماعی طور پر اعتراف کیا جاتا ہے اور اسکولز سے لے کر گھروں اور ویڈیو گیمز کلبس میں ہر ہفتے ٹورنامنٹ مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں۔ بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد کمپیوٹرز گیمز میں شمولیت کرتی ہے اور فتح یاب ہونے پر ان کو انعامات بھی دیئے جاتے ہیں۔ چینی میڈیا کا ماننا ہے کہ چینی حکومت نے عالمی سطح پر اس تحقیق کو تسلیم کرلیا ہے کہ کمپیوٹرز گیمز اور اینڈرائیڈ فونز کا مسلسل استعمال ایک قسم کی بیماری ہے، جس کو نفسیاتی ڈس آرڈر قرار دیا گیا ہے۔ اس کے منفی اثرات کی روک تھام کیلئے چینی اتھارٹیز نے بچوں کیلئے کمپیوٹرز گیمز کے استعمال کو محدود کردینے کا حکم دیا ہے۔ ادھر ٹوکیو میں کام کرنے والی ویڈیو گیمز کمپنی کے بانی ڈائریکٹر سیرکان ٹوٹو نے چینی حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے ویڈیو گیمز کی محدود پابندی کے اقدامات کو انتہائی اہم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ چینی کمپنیاں ہوں یا عالمی ادارے، سبھی کا اولین کام پیسہ کمانا ہے اور وہ (ویڈیو گیمز تیار کنندگان) چاہتے ہیں کہ ان کے نت نئے گیمز مارکیٹ میں آئیں اور وہ بھرپور پیسہ کمائیں۔ لیکن انہیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ چینی حکومت نے جو بچوں کی بینائی کی حفاظت کیلئے اقدامات اٹھائے ہیں، ان پر عمل در آمد کس طرح کیا جائے گا۔ کیونکہ ایک جانب چینی والدین اور سرپرستوں کی شعوری تربیت پر زور دیا جائے گا کہ وہ اپنے اطفال کو ویڈیوگیمز اور اینڈرائیڈ فونز اور کمپیوٹرز کے استعمال کے اوقات کار پر عملد ر آمد کروائیں تاکہ ان کی جانب سے اس سلسلے میں اولین اقدامات موثر ثابت ہوں۔ چینی ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور وزرات صحت کی جانب سے جاری صحت کے ہدایات نامہ میں کہا گیا ہے کہ والدین اور بچے اس بات کو یقینی بنائیں کہ سب سے پہلے اپنے اسکولی ہوم ورک پر توجہ دیں اور اگر وہ تعلیمی ضروریات کے تحت یا غیر نصابی سرگرمیوں کے تحت تفریح کی خاطر ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں تو صرف نصف گھنٹہ اس کام میں صرف کریں۔ اس کے بعد کم از کم پندرہ یا کم از کم دس منٹ تک اپنے آپ کو کمپیوٹر یا موبائل اسکرین سے دور کردیں تاکہ آپ کی آنکھوں کو ریلیکس ملے اور بینائی پر زور نہ آئے۔ واضح رہے کہ نیو یارک کی ایک معروف این جی او کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ویڈیو گیمز نہ صرف بچوں کی بینائی پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، بلکہ ہفتے میں روز دو گھنٹے ویڈیو گیمز کھیلنے والے اطفال کی تعلیمی کیفیت میں ابتری در آتی ہے۔ اس سلسلے میں امریکی ماہرین نے بتایا ہے کہ ویڈیو گیمز کھیلنے کی لت نہ صرف خود مجسم بیماری ہے، بلکہ اس سے بچوں میں ڈپریشن سمیت قنوطیت اور اشتعال کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، جس کے نتیجے میں ان کی بینائی، نفسیات اور قوت فیصلہ اور ٹھہرائو میں کمی آجاتی ہے۔ وہ دوسروں سے میل جول میں کمی کر کے تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس لئے اسکول جانے والے بچوں کو کسی بھی حالت میں ایک گھنٹے سے زیادہ ویڈیو گیمز کھیلنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے، کیونکہ ایک بچہ اپنی شخصیت کو ویڈیو گیمز کے کرداروں کا ایک لازمی جز سمجھنے لگتا ہے اور ناکامی یا جیت کی صورت میں اس کے اندر منفی یا مثبت جوش اور اشتعال بھی بڑھ جاتا ہے، جس سے وہ کم عمری ہی میںاعصابی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک رپورٹ میں شمالی آئرلینڈ کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور نیشنل چلڈرن بیورو نے کہا ہے کہ جو بچے دن میں کم از کم دو بار ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں ان کیلئے امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے کا تناسب 25 فیصد کم ہوجاتا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More