بارے کچھ آم کا بیاں ہوجائے! آم پھلوں کا بادشاہ ہے۔ اس کے ساتھ سیکڑوں داستانیں ہیں۔ ہم تو جس علاقے میں رہتے ہیں، اس کے بارے میں مشہور ہے کہ زمین ہموار نہیں، درخت پھلدار نہیں۔ آدمی دفادار نہیں۔ ہمارے تجربہ اور مشاہدے کے مطابق دو ابتدائی باتیں تو درست ہیں۔ تاہم تیسری بات کو حرف آخر نہیں کہا جا سکتا۔ یہاں ایسے ایسے وفادار اور جانثار لوگ ہم نے دیکھے ہیں، جن کی ہر ادا پر قربان ہونے کو جی چاہتا ہے۔ اپنے پرویز رشید کو لیجئے جب پرویز مشرف نے اپنی برطرفی کو روکنے کے لئے اقتدار پر قبضہ کیا اور منتخب وزیراعظم محمد نواز شریف اور ان کے خاندان کو پابند سلاسل کیا تو اپنے پرویز رشید جان پر کھیل گئے۔ پرویز رشید طلبہ سیاست میں بائیں بازو کی نمائندگی کرتے تھے، مگر یہ گزرے ہوئے زمانے کی باتیں ہیں۔ اب بائیں اور دائیں یوں ایک دوسرے میں مدغم ہوئے کہ شکل بھی پہچانی نہیں جاتی۔ اب خیال آتا ہے کہ بائیں دائیں کی جنگ سرے سے ہماری لڑائی نہیں تھی، بلکہ عالمی قوتوں کا تنازعہ تھا اور ہم بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانے بنے ہوئے تھے۔ اپنی جماعت اور نظریہ سے وابستگی کی بات ہو۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ پرویز مشرف نے ملک پر قبضہ کیا تو خان صاحب کراچی بلدیہ کے سربراہ تھے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی، بلکہ ایک چھوٹی سی ریاست کی سربراہی تھی، مگر خان صاحب سب کچھ فراموش کرکے نامنظور کا نعرہ لگاتے ہوئے سڑک پر آگئے۔ جیل گئے اور طاقت کی حکومت کو مسترد کر دیا۔ یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ مشاہد اللہ خان کا پورا گھرانہ سیاست میں سزا و جزاء سے بے پروا ہو کر عمل کرتا آیا ہے۔ سید اصغر علی شاہ ماضی کے سیاستدان تھے۔ پچاس کی دہائی میں راولپنڈی اور ایبٹ آباد کے درمیان ان کی بس سروس کی اجارہ داری تھی۔ بی ٹی سسٹم کا زمانہ تھا۔ راولپنڈی میں ضمنی انتخاب ہوا تو شاہ صاحب نے ایوب خان کو چیلنج کیا کہ ان کے امیدوار کے مقابلے میں اپنا آدمی کامیاب کرائے اور ایوب خان کا امیدوار شکست کھا گیا۔ ایوب خان نے شاہ صاحب کو زک پہنچانے کے لیے پنڈی ایبٹ آباد روٹ پر جی ٹی ایس کی بسیں چلا دیں اور کرایہ آدھا کر دیا۔ بیچارے شکست کھا گئے۔
مگر بات تو آم سے شروع ہوئی تھی، قلم سیاست کی وادی کی جانب گھوم گیا۔ آم ایک ایسا پھل ہے، جس کی کئی قسمیں ہیں، ہر قسم لاجواب، اپنا علیحدہ مزا! ایک زمانہ تھا کہ آم کے باغوں کی شادی کا اہتمام کیا جاتا۔ درختوں کو سہرا باندھا جاتا۔ برادری اور عام لوگوں کو دعوت دی جاتی، آنے والے آم چوستے بھی اور تماشے بھی دکھاتے۔ بڑے زمیندار اپنے دوستوں کو آموں کی پیٹیاں بھیجتے۔ نوابزادہ نصر اللہ خان اس معاملے میں سب سے آگے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ اپنی ساری زمینداری سیاست پر قربان کر دی۔ ان کے بچے اسی روایت کو برقرار نہ رکھ سکے۔ ایک اور واقعہ جو اخبارات میں پڑھا، کچھ یوں تھا کہ 70ء کی دہائی میں ایک پاکستانی سپاہی قیدی کیمپ سے فرار ہو کر یوپی کے کسی شہر پہنچ گیا۔ آم کا موسم تھا۔ ہمارے یہاں کی طرح وہاں آم سیروں کے حساب کی بجائے گنتی کے حساب سے فروخت ہوتے تھے۔ پاکستانی سپاہی نے دریافت کیا کہ آم کتنے کے سیر ہیں؟ وہاں کوئی پولیس کا سپاہی بھی کھڑا تھا۔ اس نے بازو سے پکڑ لیا کہ میاں تم کہاں سے آئے ہو۔ حضرت اسد اللہ خان غالب دو چیزوں کے دلدارہ تھے۔ ایک آب انگور اور دوسرے آم۔ کہتے ہیں کہ کسی دوست کے ساتھ بیٹھے تھے، سڑک پر آم کے چھلکے اور گٹھلیاں پڑی تھیں۔ ایک گدھا گزرا اور آم کے چھلکوں کے سونگھ کر آگے بڑھ گیا۔ دوست نے کہا کہ حضرت دیکھئے گدھا بھی آم پسند نہیں کرتا۔ مرزا نے کہا جی ہاں گدھے ہی آم پسند نہیں کرتے۔ شاہ ایران پاکستان کے دورے پر آئے تو انہیں آم پیش کئے گئے۔ انہیں یہ پھل اس قدر پسند آیا کہ صبح شام چوستے۔ اس حوالے سے یہ بات مشہور ہے کہ شاہ ایران نے صدر ایوب خان سے کہا کہ یہ پھل اس قدر عمدہ ہے جی چاہتا کہ کھاتے چلے جائیں، مگر لباس میں ہوتے ہوئے ہزار احتیاط کرنا پڑتی ہے۔ مزا تو جب ہے کہ بے لباس ہو کر یہ آم کھایا جائے!
Prev Post
Next Post