صحابہ کرامؓ نبی کریمؐ کے ایسے شاگرد تھے کہ ان کے تذکرے حق تعالیٰ نے پہلی کتابوں میں فرما دیئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’تورات اور انجیل میں خدا تعالیٰ نے ان کی نشانیاں بتا دیں۔‘‘ (الفتح: 29)
مثال کے طور پر حضرت عمرؓ نے جب بیت المقدس جانا تھا تو جس کیفیت سے انداز سے وہاں پہنچنا تھا، وہ خدا نے پہلی کتاب میں بتا دی۔ اپنا غلام اور سواری ساتھ ہے۔ عدل دیکھئے۔ عادل مشہور ہونا تھا۔ دنیا کو انصاف کر کے دکھانا تھا۔ اس غلام کے ساتھ باری طے کرتے ہیں کہ آپ اتنا پیدل چلنا میں سوار ہوں گا، پھر اتنا ہی آپ سوار ہونا اور میں پیدل چلوں گا۔
حق تعالیٰ کی شان کہ جب آخری لمحہ تھا تو آپؓ کے پیدل چلنے کا وقت تھا۔ غلام کے سوار ہونے کا وقت تھا اور جسم پہ کپڑا پہنا ہوا تھا جس میں چمڑے کا بھی پیوند لگا ہوا تھا۔ بارہ تیرہ پیوند تھے، تو غلام نے کہا حضرت! آگے تو لوگ ہوں گے، میں اپنی خوشی سے کہتا ہوں کہ آپ سوار ہو جایئے، میں پیدل چلتا ہوں۔
فرمایا: نہیں، میں انسان ہوں، مجھے تھکاوٹ ہوتی ہے، آپ بھی انسان، آپ کو بھی تھکاوٹ ہوتی ہے۔ اور یہی نشانی سابقہ کتب کے اندر بھی تھی کہ غلام سوار ہوگا اور وقت کے حاکم بادشاہ خلیفہ سواری کی نکیل اور لگام پکڑ کر چل رہے ہوں گے اور جسم پر کپڑے ہوں گے ان میں چمڑے کا پیوند ہو گا عیسائیوں نے دیکھا تو بیت المقدس کی چابیاں ان کے حوالے کر دیں۔
آج دیکھئے اگر ساری دنیا کے مسلمان جمع ہو جائیں کہ ہم بیت المقدس کی چابیاں لے جائیں تو یہ ان کے بس میں نہیں۔ ایک ہستی ایسی تھی۔ معلوم ہوا اس ہستی کا پلڑا آج کے سب مسلمانوں سے بھاری ہے۔ وہ بنے ہوئے لوگ تھے، سنورے ہوئے لوگ تھے۔ حق تعالیٰ نے ان کو بنایا تھا۔
(اسلاف کے حیرت انگیز واقعات)
Prev Post
Next Post