عدداور مقدار کا اپنا ایک اثر ہے۔ حکیم کا نسخہ پڑھیں، چھٹانک، تولے اور ماشے کے فرق سے دوائی کی تاثیر بدل جاتی ہے، حالانکہ چیز وہی ہوتی ہے، مگر مقدار اور وزن اس کے اثر کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ ایک انسان کوئی بات ایک بار سن کر یاد کر لیتا ہے، مگر دوسرے انسان کو یہی بات تین بار سننے سے یاد ہوتی ہے۔ حالانکہ زبان اور کان ایک جیسے ہیں۔ ایک شخص کتنی قوت برداشت رکھتا ہے؟ اس کا تعلق بھی بعض اوقات عدد اور مقدار سے ہوتا ہے۔ اسی طرح گرمی، سردی، آگ اور پانی کے درجہ حرارت اور درجہ برودت (ٹھنڈک) کے اپنے آثار ہوتے ہیں… آج کل کے ریڈیائی آلات بھی عدد اور مقدار کے اثر کا برملا اعلان کرتے ہیں۔ حضور اکرمؐ نے بعض دعاؤں اور کلمات کے ساتھ ان کی تعداد بھی متعین فرمائی، جو عدد اور مقدار کے مؤثر ہونے کی سب سے قوی، مضبوط اور معتبر دلیل ہے… بس اس مجموعے میں اسماء کے پڑھنے کی تعداد اور مقدار کو کسی تجربہ کار حکیم کے تولے اور چھٹانک کے تناظر میں دیکھا جائے، نہ کہ سنت و بدعت کی تعریف کے تناظر میں۔ انسانوں نے دین و دنیا کو الگ الگ کر لیا، جبکہ اسلام میں یہ دونوں اکٹھے چلتے ہیں، پس جن اسماء کے خواص میں کچھ دنیاوی فوائد لکھے ہیں، ان کے ساتھ ان اسماء میں بے شمار دینی فوائد بھی ہیں۔ اسی طرح جن اسماء کے دینی خواص لکھے ہیں، ان کے ورد میں بے شمار دنیاوی فوائد بھی ہیں۔ حق تعالیٰ مومن کو وہ دین دیتا ہے جس میں دنیا کی بھلائی بھی ہوتی ہے اور اسے وہی دنیا دیتا ہے جو اس کے دین کے لیے نافع ہوتی ہے۔ پاگل آدمی کسی کو گالی دے یا تعریف کرے اس کی زبان سے نکلے ہوئے کلمات کی کوئی خاص تاثیر نہیں ہوتی… کیونکہ سب جانتے ہیں کہ وہ قصد، ارادے، نیت اور توجہ سے نہیں بولتا لیکن اگر پاگل کی زبان سے نکلے ہوئے کلمات کو کوئی عقل مند شخص اپنی زبان سے ادا کرے گا تو اس کے اثرات فوراً ظاہر ہوں گے اور بعض اوقات معاملہ ہاتھا پائی تک جا پہنچے گا۔ کیا خیال ہے اگر اسماء کا ورد توجہ، قصد اور ارادے سے کیا جائے یا بے توجہی کے ساتھ محض رسم پوری کی جائے تو کیا دونوں کی تاثیر ایک جیسی ہو سکتی ہے؟ نفع دینا اور نقصان سے بچانا یہ سب صرف اور صرف حق تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اس لیے وہی ورد، وظیفہ اور دعا کام آتی ہے، جس کا مقصد حق تعالیٰ کو راضی کرنا ہو… باقی خواص کا درجہ ثانوی ہے، حق تعالیٰ راضی ہو گا تو سارے خواص و فوائد نصیب ہوں گے، لیکن اگر وہ راضی نہ ہوا تو پھر، کیا ورد، کیا وظیفہ اور کیا خواص؟۔ پاک چیزوں کو ناپاک مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو سوائے ہلاکت کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا… کھانا جس قدر قیمتی کیوں نہ ہو اگر ناک میں ڈالا جائے یا کان میں گھسایا جائے تو وہ فائدہ نہیں نقصان دے گا… اسماء الحسنیٰ کے ذریعے ناپاک محبت، فضول ظالمانہ شہرت، نیک لوگوں کے خلاف بددعا جیسے مقاصد حاصل کرنے والے اپنی تباہی کے سوا اور کچھ نہیں پاتے۔ جب حلال میں ساری لذتیں موجود ہیں تو حرام میں منہ مارنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس بارے میں حق تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے اور اس کے ناموں کے ذریعے اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ خاص خاص مقاصد کے لیے خاص خاص اسماء پڑھنا کچھ برا نہیں، لیکن کام کی بات یہ ہے کہ پہلے ان اسماء کو اختیار کیا جائے جو نفس کی اصلاح، مخلوق سے بے نیازی اور محبت الٰہی کے خصوصی خواص رکھتے ہیں، پھر باقی اسماء کو پڑھا جائے اور اس بات کو ہرگز نہ بھلایا جائے کہ یہ سارے اسماء اعلیٰ و ارفع ہیں، اس لیے ان تمام کے ورد سے غفلت نہ کی جائے، بلکہ نثر یا نظم کی صورت میں تمام اسماء کے ورد کو معمول بنایا جائے۔ یہ سارے اسماء گھر کے بچوں کو بھی یاد کرائے جائیں اور ان کے ذکر سے اپنے گھروں اور محفلوں کو ایمانی نور اور روحانی سکون بخشا جائے۔(جاری ہے)