صحابہ کرامؓ ہر حال میں رسول اکرمؐ کا ادب محلوظ رکھتے تھے۔ آپؐ کے سامنے نہایت نیچی آواز میں بات کرتے۔ آنکھیں نہ ملاتے۔ آپؐ کے ناخن، بال، وضو کا پانی، کوئی چیز بھی زمین پر گرنے نہیں دیتے تھے۔ آپؐ سے آگے نہ چلتے تھے۔ آپؐ سے پہلے نہ کھاتے تھے۔ ہر وقت آپؐ پر قربان ہونے کو کمربستہ رہتے تھے۔
رسول اقدسؐ صحابہؓ کو اکثر جنگی مشقیں کرایا کرتے تھے۔ ان کو بہادر اور ماہر جنگ بنانے کیلئے ان کی ہر طرح حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ ایک دن آپؐ بہت سے قبیلوں میں تیر اندازی کا مقابلہ کرارہے تھے۔ اس میں کچھ لوگ قبیلہ بنو اسماعیل کے بھی تھے۔ آپؐ نے ان کے مقابلہ پر دوسرے قبیلے کے لوگوں کو کھڑا کیا۔ آپؐ خود بھی اس کے ساتھ شامل ہوگئے اور فرمایا: ’’اے بنو اسماعیل! تیر پھینکو، تمہارا باپ بہت اچھا تیرا انداز تھا۔ میں بھی تمہارے مدمقابل کے ساتھ مل کر تمہارے مقابلہ پر ہوں۔‘‘
قبیلہ بنو اسماعیل کے لوگوں نے یہ سن کر تیر اندازی سے فوراً ہاتھ کھینچ لیا۔
آپؐ نے دریافت فرمایا: ’’تم لوگ تیر پھینکنے سے رک کیوں گئے؟‘‘ عرض کی ’’اے رسول خدا! جس قبیلے کے ساتھ آپ ہیں، ہم اس کی طرف تیر کیسے پھینک سکتے ہیں؟ بھلا ہماری یہ مجال کیسے ہو سکتی ہے کہ اپنے پیارے نبیؐ کے مقابلے پر تیر چلائیں۔‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’بنو اسماعیل! تیر پھینکو، میں سب کے ساتھ ہوں۔‘‘ تب ان لوگوں نے تیر چلانا شروع کیا۔ (بخاری کتاب الجہاد، باب تحریص علی الرمی) ابن قیمؒ کی نظر میں انتخاب شیخ کا معیار
علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں، جب کوئی شخص کسی کی پیروی کرنا چاہے (اور اس کو اپنا شیخ اور پیر بنانا چاہے) تو دیکھے کہ آیا وہ اہل ذکر میں سے ہے یا اصحابِِ غفلت میں سے؟ اور اس پر خواہشات نفسانیہ کا غلبہ ہے یا روحانیہ کا؟ اگر وہ خواہشات نفس کا غلام ہو تو اصحاب غفلت میں سے اور اس کا معاملہ حد سے متجاوز ہے۔ لہٰذا آدمی کو اپنے شیخ اور متبوع کے متعلق کی اچھی طرح تسلی کر لینی چاہیے۔ اگر تو وہ غافل ہو تو اس سے دور ہو جائے اور اگر اس پر ذکر اور اتباع سنت کا غلبہ ہو اور اس کا معاملہ حد سے متجاوز نہ ہو، بلکہ وہ اپنے اعمال میں محتاط ہو تو اسی کا ہو کر رہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post