ایران میں اپنا ہم شکل دیکھ کر حیران رہ گیا

0

اصفہان دوسرا دن یعنی 6 مارچ 2002ء میرے اپنے بنائے ہوئے پروگرام کے مطابق خاصا مصروف تھا کہ اس روز مجھے بندر عباس کے سفر کی ٹرین میں بکنگ کرانی تھی اور پھر نہ صرف سیمنان جانا تھا، بلکہ وہاں کے نمک کے گنبدوں ( Salt domes) کو وزٹ بھی کرنا تھا۔ صبح اٹھ کر حسب معمول میں نے کمرے میں ہی نماز فجر ادا کی، پھر اپنی صبح کی چہل قدمی کے لئے باہر نکل گیا۔ واپس آ کر مہمان پذیر کے ریستوران میں آذربائیجانی ناشتہ کیا، اپنا سامان پیک کیا، پھر سیدھا ایک ٹریول ایجنسی، شرکت قطار ہائے مسافر بری رجا کے بکنگ آفس گیا اور وہاں کائونٹر پر بیٹھی لڑکی سے کہا کہ مجھے کل کی تاریخ میں تہران سے بندر عباس تک سفر کرنے کے لئے ایک سیٹ چاہئے۔ اس نے پاسپورٹ مانگا۔ اس کے اندراجات پڑھ کر بولی کہ مجھے خوشی ہے کہ آپ ہمارے ملک میں بطور سیاح تشریف لائے ہیں۔ میں آپ کو اپنے ملک میں خوش آمدید کہتی ہوں۔ میں نے اس مہذب سلوک پر اس کا شکریہ ادا کیا۔ بعد ازاں اس خوبصورت نیک طنیت لڑکی نے مجھے بتایا کہ ٹرین کل سہ پہر ایک بج کر پینتالیس منٹ پر تہران سے روانہ ہو گی۔ ساتھ ہی اس نے مجھ سے درجے یا کلاس کے بارے میں بھی سوال کیا۔ اس کے بعد اس بچی کا سوال تھا کہ آپ چہار تختہ والے کمپارٹمنٹ میں سفر کرنا پسند کریں گے یا شش تختہ والے کمپارٹمنٹ میں ؟ پہلے تو میں چکرایا کہ ٹرین میں یہ تختے کہاں سے آ گئے، مگر جلد ہی سمجھ میں آ گیا کہ یہ تختے دراصل برتھیں ہیں۔ پھر یہ سوچتے ہوئے کہ زیادہ لوگوں کے ساتھ زیادہ بات چیت ہوگی اور یوں زیادہ علم میں اضافے کی امید ہے، خاتون کو بتا دیا کہ شش تختہ والے کمپارٹمنٹ میں مجھے سیٹ دے دی جائے۔ اس طرح میری سیٹ کوچ نمبر 11 کے کلاس 1 کمپارٹمنٹ میں شش تختہ والے ڈبے میں بک ہو گئی۔
مہمان پذیر میں آ کر اپنا سوٹ کیس مہمان پذیر کے صندوق امانت میں 24 گھنٹے کے لئے بعوض پانچ ہزار ریال رکھوا دیا اور کرائے کی ادائیگی کے بعد مہمان پذیر کا کمرہ خالی کر کے سیمنان جانے والی بسوں کے اڈے پر پہنچ گیا۔ اس کے بعد ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ میں بس کمپنی کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم سے جاری شدہ اپنا ٹکٹ لے کر جب بس میں سوار ہونے کے لئے گاڑی کے اگلے دروازے سے اندر داخل ہوا تو پہلی سیٹ پر ہی بیٹھے ہوئے صاحب کو دیکھ کر ٹھٹک گیا اور یہی ان صاحب کے ساتھ بھی ہوا۔ وہ صاحب ایک آذربائیجانی تھے اور ہو بہو میرے ہم شکل تھے۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ میرے ہمزاد لگتے تھے۔ کمال کی بات یہ تھی کہ ان صاحب نے بھی بھورے رنگ کی شلوار قمیض پہن رکھی تھی اور میں نے بھی۔ ان صاحب نے بھی آسمانی رنگ کی سوتی واسکٹ زیب تن کی ہوئی تھی اور میں نے بھی اور اتفاق سے دونوں واسکٹوں کا ڈیزائن یا ’کٹ‘ بھی ایک جیسا تھا۔ ان صاحب کے سر پر ہلکے سرمئی رنگ کی قراقلی ٹوپی تھی اور میرے سر پر بھی۔ ان صاحب کی داڑھی درمیانی سائز کی اور کالے اور سفید بالوں پر مشتمل تھی اور میری بھی۔ اور آخر میں اس شریف آدمی نے بھی تقریباً ایسا ہی نظر کا چشمہ (عینک) لگایا ہوا تھا جیسا کہ میں نے۔ ہم دونوں نے ششدر ہوکر ایک دوسرے کو دیکھا اور دیکھتے ہی رہ گئے۔ میں اس وقت ہی آگے بڑھا، جب پیچھے سے آنے والے مسافروں نے مجھے آگے بڑھنے کو کہا۔ جب میں اس ’حادثے‘ کے بعد اپنی مقررہ سیٹ پر بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تصویر حیرت بنا بیٹھا تھا تو پھر مجھے اصفہان اسٹیل مل کے افسر تعلقات عامہ جناب باقر زادہ کی وہ بات یاد آئی جو انہوں نے مجھ سے ہوٹل اسپادانہ اصفہان میں 2 مارچ کی شام کو کہی تھی کہ ’’چیف سیکورٹی افسر اصفہان اسٹیل مل کی برطرفی کا فیصلہ اس وقت تبدیل کیا گیا جب فیکٹری کے تمام ملازمین نے جنہوں نے اس روز مجھے دیکھا تھا، متفقہ طور پر منیجنگ ڈائریکٹر کے روبرو میرے بارے میں یہ بیان دیا کہ وہ شخص سو فیصد ایرانی لگتا تھا‘‘۔ پہلے میں نے سوچا تھا کہ شاید ان لوگوں نے بیچارے چیف سیکورٹی افسر کو بچانے کے لئے ایسا بیان دیا تھا۔ مگر اب میں بھی اسے تسلیم کرنے پر اور یہ بیان دینے پر مجبور ہوں کہ وہ سب لوگ سچے تھے اور یہ کہ میں واقعی ایرانی لگتا ہوں اور یہی نہیں بلکہ ایران کے صوبے آذربائیجان میں میرا ایک ہمزاد بھی رہتا ہے جسے تہران کے بس اسٹینڈ پر دیکھ کر میں خود حیران تھا کہ ’اصلی‘ شمس الحسن فاروقی میں ہوں یا وہ نیک بخت!
جنون فتنہ ساماں کی مرے گل کاریاں دیکھو!
’’ مری صورت بظاہر ان کی صورت ہوتی جاتی ہے‘‘
میری بس نے دس بج کر تیس منٹ پر تہران کے بس اسٹینڈ کو خدا حافظ کہا اور تہران، سیمنان کی چہار رویہ شاہراہ پر رواں ہو گئی۔ تہران سے سیمنان کا فاصلہ 236 کلو میٹر تھا۔ تقریباً درمیان میں ایک بڑا شہر ’گرم سار‘ تھا۔ مگر اس سے کافی پہلے ہی میں نے دیکھا کہ بس نمک یا نمک کے ہم قبیلہ ایوا پورائٹس (evaporites) کے علاقے میں داخل ہو گئی ہے۔ جن نرم چٹانوں سے ہم گزر رہے تھے وہ نیلی، سبز، گلابی، مٹیالی، ارغوانی جھلکیں مارنے والی بنیادی طور پر سلیٹی رنگ کی اور جپسم کی آلودگی سے مزین مارل (marl) کی تہیں تھیں، جو گاہے گاہے نوڈولر لائم اسٹون (nodular limestone) یا نوڈولر کلے کے ساتھ ادل بدل (alternate ) کر رہی تھیں۔ اور یہ سارا سلسلہ افقی یا معمولی جھکائو کے ساتھ تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ہماری گاڑی کسی بڑے اور ابھرتے ہوئے نمک کے گنبد کی کیپ راک (cap rock) پر جارہی ہے۔ کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا کہ میں پاکستان کے کوہستان نمک (salt Range) کے کسی علاقے سے گزر رہا ہوں، ہر چند کہ وہاں (سالٹ رینج میں) یہاں کے بھدے سلیٹی رنگ کے بجائے شوخ رنگ سب رنگوں سے زیادہ نمایاں ہے، کیونکہ وہاں کی کیپ راک سرخ رنگ کی ہے۔ البتہ پاکستان کی کوہاٹ/ کرک کے نمک کے گنبدوں کے کیپ راکس (cap rocks) گدلے سفید یا سلیٹی رنگ ہی کی ہیں اور وہاں کا نمک بھی عام ایرانی (ہرمز کے سرخ نمک کو چھوڑ کر) نمکوں کی طرح سفید، گدلا سفید یا سلیٹی رنگ کا ہوتا ہے۔
میری بس سیمنان کے بس اسٹینڈ پر تقریباً دو بجے یعنی ساڑھے تین گھنٹے میں پہنچ گئی۔ پہلے ٹیکسی والے حضرت مجھے ایک خاصے اچھے مہمان پذیر میں لے گئے جس میں ایک کشادہ، صاف ستھرا اور مرکزی ہیٹنگ سسٹم سے آراستہ کمرہ پچاس ہزار ریال یومیہ پر مل رہا تھا۔ میں نے کہا کہ اگر کوئی سستا مہمان پذیر مل جائے تو بہتر ہو گا۔ اس شریف آدمی نے کہا کہ اس سے سستا مہمان پذیر ہے اور قریب ہی ہے، مگر آپ کے لئے یہی مناسب ہوگا۔ جب میں نے اس شریف آدمی سے کہا کہ بھئی مجھے اپنی جیب بھی تو دیکھنی ہے تو وہ صاحب بولے کہ بسم اللہ، چلئے میرے ساتھ اور پھر وہ مجھے ایک دوسرے مہمان پذیر میں لے گئے جس کو سرائے کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ وہاں عام سائز کے کمرے نہیں تھے، بلکہ ہال یا بڑے سائز کے کمرے تھے، جس کے فرشوں پر فوم کے گدے بچھے تھے۔ مہمان حضرات سے کسی ایک گدے پر سونے کا اور مشترکہ واش روم استعمال کرنے کا ہی کرایہ لیا جاتا تھا جو خاصا کم تھا۔ مجھ پر اس وقت پیسے بچانے کا دورہ پڑا ہوا تھا۔ سوچا کہ مجھے ابھی اپنے فیلڈ ٹرپ پر چلے جانا ہے، شام کو خاصی تاخیر سے واپسی کا امکان ہے اور کل ناشتے کے بعد تہران واپس چلے جانا ہے، کیوں نہ یہیں قیام کر لوں۔ مگر ٹیکسی ڈرائیور نے اور مہمان پذیر کے منیجر نے بھی دبے دبے الفاظ میں مجھے خبردار کیا کہ یہ جگہ آپ کے لئے مناسب نہیں۔ تیسرے میں نے وہاں ٹھہرے ہوئے لوگوں کو دیکھا کہ وہ بھی مجھے عام ایرانیوں سے ہٹ کر خاصے مختلف قسم کے لوگ نظر آئے۔ میں نے منیجر اور ٹیکسی ڈرائیور کا ان کے نیک مشوروں کے لئے شکریہ ادا کیا اور سیدھا پہلے والے مہمان پذیر میں آ گیا جہاں کی منیجر ایک معمر، بڑی خوش اخلاق اور مہذب خاتون تھیں۔ جو کمرہ مجھے دیا گیا وہ اوپر کی منزل میں ایک کشادہ، ہوادار اور ڈبل بیڈ والا مرکزی حرارتی نظام سے منسلک کمرہ تھا۔ مشترکہ واش روم قریب ہی تھا، مگر اس میں غسل کرنے کے لئے مزید ادائیگی کرنی تھی۔ کمرے میں کپڑوں وغیرہ کے لئے ایک کشادہ الماری تھی۔ کمرے کے باہر گیلری میں ایک مشترکہ ریفریجریٹر بھی مہیا کیا گیا تھا۔ مہمان پذیر میں چائے مل سکتی تھی، مگر کھانا نہیں۔ کمرے کے تین اطراف میں کھڑکیاں تھیں جن سے باہر کے سرسبز و پر فضا منظر کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More