ایک حافظ القرآن قاری صاحب جو ریاست رام پور کے رہنے والے تھے، ان کو حج اور حضور اقدسؐ کے روضہ اطہر کی زیارت کا شوق ہوا۔ اس وقت ان کے پاس صرف ایک روپیہ چار آنے تھے۔ بس اس طرح انہوں نے حج کا ارادہ کر لیا۔ ایک روپے کے تو چنے بھنوائے اور چار آنے کا تھیلا سلوالیا۔ جس میں وہ چنے بھر لئے (اس زمانے میں ہر چیز ارزاں اور سستی تھی) اور وہ پیادہ چل کھڑے ہوئے۔ دن کو روزہ رکھتے، راستے میں اگر بلا طلب کھانا مل گیا تو کھالیا، ورنہ ایک مٹھی چنے کھا کر پانی پی لیا۔ اس طرح کئی مہینے میں بمبئی پہنچے۔
اب بمبئی سے آگے سمندر تھا، اس میں چلنا مشکل تھا اور جہاز میں سوار ہونے کے لئے ٹکٹ کی رقم چاہئے اور ان کے پاس دام کہاں۔ جب حجاج کرام جہاز پر سوار ہوئے تو قاری صاحب بھی جہاز پر پہنچے اور جہاز کے کپتان، جو انگریز تھا، سے کہا مجھے بھی جہاز میں نوکری کی ضرورت ہے۔ اس نے ان کی شکل و صورت عالمانہ اور بزرگانہ دیکھی تو عذر کر دیا کہ آپ کی شان کے لائق میرے پاس کوئی ملازمت نہیں۔
وہ شکل و صورت اور وضع قطع سے سمجھ گیا، یہ کوئی نیک اور بزرگ آدمی ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے’’ مرد حقانی کی پیشانی کا نور… کب چھپا رہتا ہے پیش ذی شعور‘‘
قاری صاحب نے جہاز کے کپتان سے فرمایا کہ صاحب! آپ لائق اور غیر لائق سے بحث نہ کیجئے، جو نوکری بھی ہو، کیسی ہی ذلیل ہو، میں کرلوں گا۔ کیونکہ دل میں حرمین شریفین کی طلب صادق تھی۔ نوکری مقصود تھوڑا ہی تھا۔ بس جہاز میں سوار ہوکر مکہ مکرمہ پہنچنا مقصود تھا۔ انگریز کپتان نے کہا آپ سے وہ نوکری نہ ہو سکے گی۔
قاری صاحب نے فرمایا تم بتلاؤ تو ایسی وہ کیا نوکری ہے؟ کہا میرے پاس صرف بھنگی یعنی لیٹرین صفائی والے کی نوکری کی جگہ خالی ہے۔ قاری صاحب نے فرمایا کہ مجھے منظور ہے۔ کپتان بڑا حیران ہوا کہ یہ فرشتہ صورت آدمی ہے کہ گندہ کام کیسے کرے گا۔ اس نے قاری صاحب کو عاجز کرنے کے لئے کہا بھنگی کے کام کے ساتھ ساتھ ایک کام سخت مشقت کا بھی ہے۔ وہ تم سے ہر گز نہ ہو سکے گا۔ اگر تم کو نوکری پر اصرار ہے تو اچھا ذرا یہ بورا اٹھاؤ وہاں دو، ڈھائی من کا ایک بڑا بورا پڑا ہوا تھا۔ قاری صاحب اس بورے کی طرف چل پڑے اور خدا کا نام لے کر ہاتھ لگایا اور ساتھ ہی حق تعالیٰ سے دعا بھی کی کہ یہاں تک تیرے ہی فضل و کرم سے میرا کام تھا، میں نے کردیا۔ اب خدایا آپ کا ہی کام ہے۔ میری امداد و نصرت فرما اور صدق دل سے بڑا بھاری بورا جو اٹھایا تو اپنے سے اوپر لے گئے اور پھر آرام سے رکھ دیا۔ کپتان نے ان کی کمر تھپکی اور کہا شاباش اب ہم نے تم کو ملازم کرلیا ہے۔ یہ محض حق تعالیٰ جل شانہ کی غیبی امداد تھی۔ ورنہ قاری صاحب بے چارے مجاہدے ریاضتیں کرنے والے اور مہینوں کا راستہ پیدل طے کئے ہوئے کب اتنا بھاری بوجھ اٹھا سکتے تھے۔
اسی وقت اور بھی دو آدمی جو غریب تھے۔ وہ بھی حج کے متمنی تھے۔ انہوں نے بھی کپتان سے کہا کہ ہمیں بھی کوئی ملازمت جہاز کی دے دیجئے۔ اس نے کہا کہ یہی بھنگی کی ملازمت ہے۔ جو تمہیں بھی مل سکتی ہے۔ وہ اس کے لئے آمادہ نہ ہوئے۔ تو قاری صاحب نے ان سے فرمایا، ارے خدا کے بندو حج جیسی نعمت سے کیوں محروم رہتے ہو۔ اگر تمہیں اس کام سے نفرت، عار اور شرم آتی ہے تو تم یہ نوکری فوراً منظور کرلو، تمہارا کام بھی میں ہی کر دیا کروں گا۔ (یہ ہے عاشق رسولؐ اور سچے مسلمان کی شان)
چنانچہ انہوں نے یعنی قاری صاحب نے کئی آدمیوں کا کام اپنے ذمہ لے لیا اور اب یہ حالت ہوئی کہ روزانہ جہاز کی لٹیرینوں کو صاف کرتے تھے۔ قاری صاحب دن کو یہ کام کرتے، نمازوں کے وقت غسل کرکے دوسرے کپڑے پہن لیتے اور رات کو نماز تہجد میں قرآن کریم خوش الحانی سے پڑھتے۔
ایک دفعہ جہاز کا کپتان بھی رات کو قاری صاحب کے پاس سے گزرا۔ ان کا قرآن سن کر وہیں کھڑا ہوگیا اور بڑے غور سے سنتا رہا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو پھر پوچھا تم یہ کیا پڑھ رہے تھے؟ فرمایا یہ ہمارے خدا کا کلام ہے۔ کپتان نے کہا کہ ہم کو بھی یہ کلام سکھاؤ، ہم کو یہ بہت اچھا معلوم ہوتا ہے۔
فرمایا کہ اس کو پڑھنے کے لئے پاک ہونا شرط ہے۔ اس نے کہا ہم نہالیں گے۔ قاری صاحب نے فرمایا کہ وہ پاکی وطہارت ظاہری نہانے سے نہیں ہوتی۔ اس نے کہا ہم سب کچھ کریں گے۔ چنانچہ قاری صاحب نے ظاہری طہارت کرائی، یعنی غسل کرایا۔ پھر کلمہ طیبہ پڑھایا۔ پھر قرآن کریم کی چند چھوٹی چھوٹی سورتیں سکھائیں۔ اب وہ کپتان ہر وقت کلمہ طیبہ اور سورتیں پڑھتا رہتا تھا۔ دوسرے انگریزوں نے جب اس سے کلمہ اور قرآن پاک پڑھتے سنا۔ کہا یہ تم کیا پڑھتا ہے۔ کہا یہ خدا کا کلام ہے۔ ہم کو بہت اچھا معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے پڑھتا ہوں۔ انگریزوں نے کہا اس کے پڑھنے سے آدمی مسلمان ہو جاتا ہے۔ اس نے کہا نہیں نہیں، ہم مسلمان نہیں ہوئے۔ انگریزوں نے پھر کہا کہ اس کے پڑھنے سے آدمی ضرور مسلمان ہوجاتا ہے۔ کپتان نے کہا اچھا اس بھنگی سے ہم پوچھ کر آتے ہیں۔ پھر وہ قاری صاحب کے پاس آیا اور کہا کہ ہم مسلمان ہوگیا ہے؟ فرمایا تم کو آج خبر ہوئی ہے۔ تم تو کئی دن ہو چکے ہیں۔ خدا کے فضل و کرم سے تم مسلمان ہوکر دین محمدیؐ میں داخل ہوچکے ہو۔ یہ سن کر اول تو اسے تحیر و حیرانی اور تعجب سا ہوا۔ پھر قرآن کریم کی نورانیت نے اس کو اپنی طرف کھینچ لیا اور کہا کہ پھر کچھ پروا نہیں، اب بس ہم مسلمان ہی رہیں گے۔ مگر اس کلمہ اور قرآن کو جو آپ نے سکھایا ہے، ہر گز نہ چھوڑیں گے۔
چنانچہ اس نے اپنی میم (بیگم) سے بھی کہہ دیا کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں، تم اگر ہمارے ساتھ رہنا چاہو تو اسلام قبول کرلو، ورنہ ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ پھر جب جہاز جدہ کے قریب پہنچا تو اس مسلمان کپتان نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا اور قاری صاحب کے ساتھ جاکر حج کیا۔ حضور اقدسؐ کے روضہ انور کی زیارت سے مشرف ہوا اور پکا سچا مسلمان ہوکر دین اسلام کی خدمت میں لگ گیا۔ (فضائل صوم و صلوٰۃ جلد 10 ص 223)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post