علامہ ابن جوزی ؒ فرماتے ہیں: ’’ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ ایک شخص حج کی غرض سے بغداد آیا۔ اس کے پاس ایک ہار تھا، جس کی قیمت ایک ہزار دینار تھی۔ اس نے اسے فروخت کرنے کی بڑی کوشش کی، پر وہ نہ بک سکا۔ سو وہ ایک عطر فروش کے پاس آیا، جو بہت اچھی شہرت رکھتا تھا، چنانچہ اس نے اس ہار کو امانتاً اس کے پاس رکھوا دیا۔ پھر حج کا فریضہ ادا کیا اور لوٹ آیا، وہ تحفہ لے کر عطر فروش سے اپنا ہار لینے گیا، جس پر عطر فروش نے اس سے کہا: ’’ تم کون ہو اور یہ کیا ہے؟‘‘
اس نے کہا: ’’میں اس ہار کا مالک ہوں، جسے میں نے تمہارے پاس امانتاً رکھوایا تھا۔‘‘
عطر فروش نے اس سے بات نہیں کی اور دھکے دے کر اسے گھر سے نکال دیا اور کہا: ’’ تم مجھ پر الزام لگا رہے ہو۔‘‘
لوگ ان کے اردگرد جمع ہو گئے اور حاجی سے کہا: ’’ تمہارا ناس ہو یہ بہت نیک آدمی ہے۔ تمہیں الزام لگانے کے لئے کوئی اور نہیں ملا؟‘‘
حاجی حیرت زدہ رہ گیا، وہ دوبارہ عطر فروش کے پاس گیا۔ مگر سوائے گالی گلوچ اور مار پٹائی کے کچھ نہ ملا۔
اس سے کہا گیا: ’’ تم امیر مملکت کے پاس کیوں نہیں جاتے وہ ان امور میں بہت دور اندیش ہے؟‘‘
چنانچہ اس نے اپنا واقعہ لکھا اور اس کو امیر مملکت عضد الدولہ تک پہنچا دیا۔
امیر مملکت تشریف لائے اور اس سے اس کے بارے میں پوچھا۔ اس نے پورا قصہ سنا دیا، جس پر عضد الدولہ نے کہا: ’’تم کل اس عطر فروش کے پاس جانا اور اس کی دکان کے سامنے بیٹھ جانا، اگر وہ تمہیں منع کرے تو اس کے سامنے والی دکان پر صبح سے مغرب تک بیٹھے رہنا اور اس سے بات نہ کرنا، تین دن تک مسلسل یونہی کرتے رہنا، چوتھے دن میں تمہارے سامنے سے گزرتے ہوئے تو تھوڑا سا رک کر تمہیں سلام کروں گا تو تم نہ میرے احترام میں کھڑے ہونا اور نہ میرے سلام کا جواب دینا۔ جب میں چلا جائوں تو دوبارہ اسے اس ہار کی یاد دہانی کروانا۔ پھر وہ تمہیں جو کچھ کہے مجھے بتانا اور اگر وہ تمہیں وہ ہار دیدے تو اسے لے کر میرے پاس آنا۔‘‘
چنانچہ وہ شخص اس عطر فروش کی دکان پر بیٹھنے کے لئے آیا، لیکن اس نے منع کر دیا۔ سو وہ اس کے سامنے والی دکان پر برابر تین دن بیٹھا رہا۔ چوتھے دن امیر مملکت اپنی شاہانہ سواری پر گزرا۔ جیسے ہی اس نے خراسانی حاجی کو دیکھا تو اس کے پاس رک کر سلام کیا۔ حاجی نہ کھڑا ہوا اور نہ اس نے سلام کا جواب دیا۔
امیر مملکت نے کہا: ’’ بھائی صاحب! آپ یہاں ہوتے ہوئے بھی ہماری طرف تشریف نہ لائے اور نہ ہی ہمیں کسی خدمت کا موقع دیا۔ ‘‘ حاجی نے وہی کیا جو ان کے درمیان معاہدہ میں طے ہوا تھا اور امیر مملکت کے ساتھ ڈھنگ سے بات بھی نہ کی، حالاں کہ پوری فوج رکی ہوئی تھی اور امیر مملکت کھڑے اس سے پوچھ رہے تھے اور سرگوشیاں کر رہے تھے۔ یہ دیکھ کر عطر فروش خوف کے مارے بے ہوش ہونے والا تھا۔ سو جب امیر مملکت چلے تو عطر فروش فوراً اس آدمی کی طرف بڑھا اور کہا: ’’ تیرا ناس ہو وہ ہار تم نے میرے پاس کب رکھوایا تھا اور کس چیز میں لپٹا ہوا تھا؟ مجھے یاد دلائو شاید مجھے یاد آجائے۔‘‘
ہار کے مالک نے کہا: ’’ یہ اس کی نشانیاں ہیں۔‘‘ سو وہ کھڑا ہو گیا اور ڈھونڈنے لگا اور پھر تھوڑی دیر بعد وہی ہار ایک تھیلی سے نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا۔ اور کہا: ’’ میں تو بالکل بھول ہی گیا تھا اور اگر تم مجھے ابھی یاد نہ دلاتے تو مجھے کبھی یاد نہ آتا۔‘‘ اس آدمی نے وہ ہار اس سے لے لیا اور اپنے دل میں کہا: ’’ اب مجھے امیر مملکت کو بتانے میں کیا فائدہ ہے۔ پھر سوچا، ہو سکتا ہے وہ اسے خریدنا چاہتے ہوں۔ چنانچہ وہ ان کے پاس گیا اور ساری بات انہیں بتائی۔‘‘
امیر مملکت نے اپنے کوچوان کو وہ ہار دے کر عطر فروش کی دکان پر بھیجتے ہوئے کہا: ’’ یہ ہار عطر فروش کی گردن میں لٹکا کر اسے دکان کے دروازے پر ہی پھانسی دیدو اور یہ اعلان کر دو کہ ’’ جس نے امانت میں خیانت کی اس کی یہ ہی سزا ہے۔‘‘
دوپہر ڈھلنے کے بعد کوچوان نے ہار کے مالک کو اس کا ہار واپس کر دیا اور کہا: ’’ اب تم جائو۔‘‘ چنانچہ وہ اپنے مال کے واپس مل جانے پر خوش اور مطمئن لوٹ آیا۔
(راحت پانے والے۔ مولف: ڈاکٹر ابراہیم الحازمی، استاذ کنگ سعود یونیورسٹی ریاض، سعودی عرب)
٭٭٭٭٭
Prev Post