امریکہ نے افغانستان پر اکتوبر 2001ء میں حملہ کیا تھا۔ اس جنگ کو اب سترہ برس ہونے والے ہیں۔ اس نے اس دوران کئی روپ بدلے ہیں، مگر امریکہ کو اس طویل جنگ میں تاحال فتح تو درکنار، طالبان نے سانس تک لینے کا موقع نہیں دیا۔ کیا امریکہ کو افغانستان پر حملہ کرنے کے مقاصد حاصل ہوگئے؟ کیا امریکہ نے دہشت گردی پر قابو پالیا؟ کیا امریکہ نے افغانستان میں طالبان کی حکومت گرا کر جمہوریت کو بحال کر دیا؟ کیا افغانستان میں امریکی کوششوں سے امن بحال ہو گیا؟ یہ وہ سوال ہیں آج ہر ذہن میں گردش کررہے ہیں اور ان کا ایک ہی جواب ہے کہ بالکل نہیں۔
امریکہ کی افغان جنگ بے مقصد تھی، بے مقصد ہے اور بے مقصد رہے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں شکست کھا چکا ہے، خود امریکہ کو اس بات کا ادراک ہے، اس نے اگرچہ ہارتا جا مگر للکارتا جا والی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ مطلب یہ کہ اپنی شکست تسلیم کرنے پر تیار نہیں، کیونکہ وہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے، بھلا خاک نشین طالبان کے ہاتھوں شکست کیسے تسلیم کرلے؟ امریکہ اس جنگ میں 4 کھرب ڈالرز سے زائد کے اخراجات کر چکا ہے۔ جنگ ابھی جاری ہے۔ امریکہ 2500 کے قریب فوجیوں کی ہلاکتیں کروا چکا ہے۔ 21000 کے قریب فوجی زخمی اور معذور ہو چکے ہیں۔ اس جنگ میں کتنے افغان ہلاک ہوئے ہیں، کسی کو بھی اس کا اندازہ نہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں افغان شہری مہاجرین کی شکل میں پاکستان میں موجود ہیں۔
امریکہ نے ویتنام کی جنگ میں بھی شکست کا سامنا کیا تھا، اس کیلئے ویتنام کی جنگ کے نتائج انتہائی تکلیف دہ تھے۔ توقع تھی کہ وہ اس جنگ کے نتائج سے سبق حاصل کرے گا، مگر اس نے اسے فراموش کردیا اور افغانستان میں دوبارہ سے انہی غلطیوں کا ارتکاب کیا، جو اس نے ویتنام میں کی تھیں۔ امریکہ نے 1980ء کی دہائی میں افغانستان پر حملہ آور سوویت افواج کی غلطیوں سے بھی کچھ نہ سیکھا۔ برزنسکی نے جو امریکی صدر جمی کارٹر کے دور حکومت میں امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر رہے تھے، انہوں نے جارج بش کو خبردار کیا تھا، مگر بش نے ان کی نصیحت کو نظر انداز کر دیا اور آج نتیجہ سامنے ہے۔
امریکی ابھی بھی اس خوش فہمی میں ہیں کہ وہ یہ جنگ جیت لیں گے۔ گزشتہ دنوں طالبان نے افغانستان کے اہم ترین شہر غزنی پر قبضہ کرلیا۔ غزنی پشاور سے کابل جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے۔ امریکہ نے طالبان کی پیش قدمی روکنے کیلئے اپنی ایئر فورس کا بھرپور استعمال کیا۔ امریکی ایئر فورس کے B-1 بمبار طیاروں، A-10 گراؤنڈ اٹیک طیاروں اور AH-64 گن شپ ہیلی کاپٹروں نے طالبان پر خوفناک ترین بمباری کی، مگر طالبان کی پیش قدمی نہ روک سکے اور تین دن بعد طالبان نے غزنی کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اب امریکی فورسز کے کمانڈر اس خوف میں مبتلا ہیں کہ اگر طالبان نے مزید علاقوں کی جانب پیش قدمی شروع کی تو زمینی جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے، جس میں امریکی فوجیوں کی ہلاکتیں ناگزیر ہوں گی۔
غزنی پر طالبان کا قبضہ امریکی فورسز کے علاوہ امریکی حکومت کیلئے بھی زبردست شرمندگی کا باعث بنا ہوا ہے، کیونکہ امریکہ کو اندازہ ہو چکا ہے کہ طالبان کو روکنا اب اس کے بس کی بات نہیں رہی۔ افغان آرمی اور سیکورٹی فورسز، جنہیں امریکہ نے تربیت دی تھی غزنی سے فرار ہوگئے، کیونکہ ان میں طالبان سے لڑنے کی ہمت اور حوصلہ نہیں ہے۔ یہ بات امریکہ کیلئے مزید شرمندگی کا باعث بنی ہے۔ ٹرمپ کیلئے بھی یہ ایک بڑا جھٹکا ہے، جو یہ سمجھتا ہے کہ امریکی فورسز اب بھی طالبان کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ امریکہ کی خوفناک بمباری بھی طالبان کا راستہ نہ روک سکی۔ یہ بات امریکی ایئر فورس کیلئے بھی یقیناً شرم کا باعث ہوگی۔
طالبان کی موجودہ پیش قدمی کے باعث افغانستان کی سر زمین امریکی فورسز کیلئے مزید خطرناک ہو چکی ہے۔ زمین کے راستے امریکی فورسز کی نقل و حرکت اب تقریباً بند ہو چکی ہے۔ انہیں روڈ سائیڈ بم حملوں کا خوف دامن گیر رہتا ہے، چنانچہ امریکی فورسز کی نقل وحرکت اب ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ طالبان اس وقت افغانستان کے 50 فیصد علاقوں پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں اور اب ان کی نظریں کابل پر مرکوز ہیں۔ جہاں کٹھ پتلی افغان حکومت صدارتی محل سے آگے اپنا عمل دخل نہیں رکھتی اور اب وہ بھی شدید خطرات سے دوچار ہے۔ اگر امریکی ایئر فورس استعمال نہ کی جائے تو طالبان پورے افغانستان پر قابض ہو جائیں گے، لیکن صورتحال یہ ہے کہ رات کی تاریکی میں پورے افغانستان میں طالبان کا کنٹرول ہوتا ہے، جبکہ امریکی اور افغان فورسز اپنے اپنے ٹھکانوں میں دبکے رہتے ہیں۔
امریکہ نے افغان جنگ کا آغاز ہی جھوٹ سے کیا تھا اور اس جنگ کے آغاز کے ساتھ ساتھ اب بھی مسلسل جھوٹ بول رہا ہے۔ امریکہ افغان طالبان کو دہشت گرد قرار دیتا ہے، یہ ایک بڑا جھوٹ ہے، کیونکہ طالبان نہیں امریکہ خود دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔ جس کے تاریخی شواہد اور ثبوت موجود ہیں۔ طالبان نے امریکہ پر حملہ نہیں کیا تھا، بلکہ امریکہ نے اپنی بدنیتی سے افغانستان پر حملہ کیا اور طالبان تو اپنے ملک پر حملہ آور غاصبوں کے خلاف نبردآزما ہیں اور اپنی سرزمین پر قابض، غاصب افواج کے خلاف لڑنا دہشت گردی نہیں، بلکہ اپنے وطن کا دفاع کرنا ہوتا ہے۔
افغانستان میں جب طالبان کی حکومت تھی تو ملک میں امن و امان قائم تھا، عام شہری پر امن انداز میں زندگی بسر کر رہے تھے، طالبان کے زمانے میں افغانستان میں پوست کی کاشت تقریباً ختم ہوگئی تھی، چنانچہ افغانستان سے منشیات کی تجارت ختم ہوکر رہ گئی تھی اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف پوری دنیا کرتی ہے، لیکن افغانستان پر امریکی حملے اور اس کے نتیجے میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں موجود پرانے کمیونسٹوں، شمالی اتحاد سے تعلق رکھنے والے تاجک قبائل نے ایک بار پھر سے پوست کی کاشت شروع کر دی اور افغانستان میں ہیروئن کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہوگئیں۔ امریکی قبضے کے بعد افغانستان دنیا بھر میں منشیات کی پیداوار میں ایک بار پھر اول نمبر پر آگیا ہے اور یہ سب کچھ امریکی اور ایساف افواج کی موجودگی میں ہوا، کیونکہ انہوں نے طالبان کے خلاف شمالی اتحاد کی ہمدردیاں اور سپورٹ حاصل کرنے کیلئے انہیں منشیات کی تجارت کی اجازت دی، جس کے نتیجے میں افغانستان میں پوست کی کاشت جو طالبان کے زمانے میں محض پانچ فیصد رہ گئی تھی، ایک بار پھر سو فیصد ہوگئی۔
امریکی ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ افغانستان میں پوست کی کاشت اور منشیات کی تجارت میں طالبان کا کردار ہے، لیکن یہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے۔ امریکی فورسز کی موجودگی میں بھی افغان سردار یعنی وارلارڈز جو اشرف غنی کی حکومت کو سپورٹ کرتے ہیں، تقریباً افغانستان میں پوست کی کاشت اور اس سے منشیات کی تجارت کو مکمل طور پر کنٹرول کرتے ہیں اور یہی افغانستان سے منشیات کو دیگر ممالک میں برآمد کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ افغان آرمی اور پولیس بھی اس دھندے میں ایک بڑا حصہ وصول کرتی ہے۔ اسی کے تعاون اور امریکی فورسز کے صرف نظر کے باعث اربوں ڈالرز مالیت کی منشیات افغانستان سے وسطی ایشیائی ریاستوں کے راستے دنیا بھر میں بھیجی جاتی ہے۔ کبھی کبھار پاکستان کے راستے بھی ایسا کیا جاتا تھا، مگر اب پاکستان نے سخت اقدامات اٹھائے ہیں، جس کے باعث منشیات سے لدھے ٹرکوں نے پاکستان کا راستہ استعمال کرنا ختم کر دیا ہے۔
زیادہ پرانی بات نہیں جب افغانستان میں امریکی اور ایساف افواج کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب تھی، اس وقت تو افغان سر زمین پر ان افواج کا کنٹرول تھا۔ امریکی سی آئی اے کا بہت بڑا نیٹ ورک بھی موجود تھا، اس وقت طالبان پاور میں بھی نہ تھے، بلکہ بکھرے ہوئے تھے، لیکن اس وقت پوست کی کاشت اور منشیات کی تیاریاں اور تجارت اپنے عروج پر تھی اور اس دھندے میں امریکی سی آئی اے کا بڑا اہم کردار تھا، جو منشیات کی تجارت سے ہر سال اربوں ڈالرز حاصل کر رہی تھی۔ اس دور میں امریکی فورسز اور سی آئی اے مشترکہ طور پر ہیروئن کی تجارت کی سر پرستی کر رہے تھے۔ اس حقیقت سے پوری دنیا واقف ہے، جبکہ پینٹاگون اور امریکی حکومت بھی اس بات سے اچھی طرح آگاہ تھی، مگر اس نے خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ اس دور میں عالمی جرائد میں ایسے درجنوں مضامین شائع ہوئے، جن میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ افغانستان میں منشیات کی تجارت میں امریکی سی آئی اے خوراک بھی نصف ہو گئی۔ بالخصوص جیل کے ابتدائی دن، تینوں کے لیے بڑے کٹھن تھے۔ اس وقت موسم بھی آج کے مقابلے میں زیادہ گرم تھا۔ لہٰذا باپ بیٹی کی خوراک نصف اور پانی کی مقدار دگنی ہو گئی۔ ابتدائی تین ہفتوں میں ہی نواز شریف اور مریم نواز کا وزن گرنا شروع ہو گیا تھا۔ بیمار بیگم کلثوم نواز کی دوری سے پیدا ہونے والی ڈپریشن نے بھی اس میں کردار ادا کیا۔ ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف اور ان کی بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، مشاہد اللہ خان اور نون لیگ کے اقلیتی رکن اسمبلی ڈاکٹر درشن رو دیئے تھے۔ بالخصوص مشاہداللہ خان کی ہچکیاں نہیں رک رہی تھیں۔ جس پر مریم نواز نے انہیں دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ تو بڑے بہادر آدمی ہیں۔ مشاہداللہ خان کراچی میں اپنے بیٹے کی انتخابی سرگرمیوں سے فارغ ہو کر الیکشن کے فوری بعد نواز شریف اور مریم نواز سے ملاقات کے لیے پہلی بار اڈیالہ جیل پہنچے تھے۔ ذرائع کے مطابق اب یہی کیفیت جاتی امرا میں نواز شریف اور مریم نواز کو قید سے رہائی کے بعد پہلی بار دیکھنے والوں کی ہے۔ ان میں زیادہ تر کو کیپٹن (ر) صفدر کے وزن میں کمی پر حیرانی ہے۔ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ بطور سابق فوجی کیپٹن (ر) صفدر جسمانی طور پر کافی مضبوط تھے۔ تاہم اسیری کے دوران دل کے آپریشن اور دو اسسٹنٹ ڈالے جانے نے بھی کیپٹن (ر) صفدر کی صحت کو خاصا متاثر کیا ہے۔
جاتی امرا میں موجود ذرائع نے بتایا کہ پے رول پر رہا ہونے کے بعد بدھ کی شام تک نواز شریف اور مریم نواز نے صرف ایک بار نہایت کم مقدار میں کھانا کھایا۔ زیادہ وقت آرام اور گھر کے لوگوں کے ساتھ گزار رہے ہیں۔ اڈیالہ جیل میں نواز شریف اور مریم نواز کو لیگی سینیٹر چوہدری تنویر اور مریم نواز کے سمدھی چوہدری منیر کے گھر سے کھانا پہنچایا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭
Next Post