محمد قاسم
افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں تعطل پیدا ہونے کے بعد طالبان نے امریکی فوجیوں پر حملے تیز کر دیئے ہیں۔ مشرقی افغانستان کے صوبہ لوگر میں امریکی فوج کیلئے شدید مشکلات ہیں۔ جہاں ایک ہفتے میں دو بار امریکی فوجیوں کو نشانہ بنایا گیا اور انہیں پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ ذرائع کے مطابق طالبان کے حملوں میں تیزی آنے کے بعد افغان سیکورٹی اہلکاروں کے حوصلے بھی پست ہونے لگے ہیں۔ طالبان نے جنوب مشرقی افغانستان کے بعد شمال اور مشرقی افغانستان میں بھی نئے محاذکھول دیئے ہیں، جس کی وجہ سے افغان اورامریکی فوجیوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ دوسری جانب امریکی بمباری سے عام لوگوں کے جانی و مالی نقصانات کے باعث افغان عوام میں اشرف غنی حکومت کیخلاف اشتعال پیدا ہو رہا ہے۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی معلومات کے مطابق افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کیلئے جاری کوششوں میں تعطل پیدا ہوگیا ہے، جس کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ قبائلی سردار طالبان کے ساتھ رابطوں میں پیشرفت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ادھر طالبان نے غزنی کے بعد جوزجان اور مشرقی صوبہ لوگر کو بھی ہدف بنالیا ہے۔ اس طرح وہ جنگ کو پھیلا رہے ہیں اور حقانی نیٹ ورک کے جنگجو مزید مضبوط ہورہے ہیں۔ جس کی وجہ سے غزنی کے بعد لوگر میں بھی حملے تیز ہوگئے ہیں۔ ایک ہفتے کے اندر چار امریکی فوجی طالبان کے حملوں میں ہلاک اور تین زخمی ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز (بدھ کو) علی الصباح طالبان نے اس وقت امریکی فوجیوں کو نشانہ بنایا جب وہ افغان فوجیوں کے ہمراہ اپنے اڈے سے کسی مشن پر روانہ ہو رہے تھے۔ اس حملے میں دو امریکی فوجی ہلاک اور تین زخمی ہوئے۔ مقامی انتظامیہ نے بھی واقعے کی تصدیق کی ہے کہ حملہ کابل گردیز شاہراہ پر ہوا۔ اسی طرح دو روز قبل بھی لوگر کے علاقے محمداغی میں طالبان نے امریکی فوجیوں کو نشانہ بنایا تھا، جس میں ایک فوجی ہلاک ہونے کی تصدیق اتحادی افواج نے بھی کی تھی۔ تاہم آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حملے میں بھی دو فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ دوسری جانب طالبان نے غزنی پر بھی دباؤ بڑھا دیا ہے۔ طالبان جنگجوئوں نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب مقر کے فوجی اڈے پرقبضہ کرلیا۔ لڑائی میں بارہ افغان فوجی مارے گئے۔ طالبان کے مطابق اس اڈے پر تعینات افغان سیکورٹی اہلکار لوگوں سے بھتہ وصول کرتے تھے، جس کی وجہ سے حملہ کیا گیا۔ طالبان نے افغانستان میں گیارہ ستمبر کو امریکی فوجیوںکو نشانہ بنایا۔ افغانستان میں امریکی کمانڈ کی تبدیلی کے فوری بعد یہ طالبان کی اہم کارروائیاں تصور کی جا رہی ہیں۔ طالبان ذرائع کے مطابق یہ حملے نئے کمانڈر اسکاٹ ملر کیلئے پیغام ہیں کہ افغانستان میں امریکہ فوجی طاقت کے ذریعے کامیاب نہیں ہو سکتا۔ واضح رہے کہ سات اکتوبر کو افغانستان میں امریکی قبضے کو اٹھارہ سال ہوجائیں گے۔ یہ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہے، جو اٹھارہ سال سے جاری ہے اور اڑتالیس ممالک کے ساتھ ہونے کے باوجود افغانستان امریکہ کیلئے درد سر بنا ہوا ہے۔ افغان طالبان کا کہنا ہے کہ اب لڑائی ختم کرنے کا اختیار امریکہ کے پاس نہیں ہے۔ بلکہ انخلا ہی لڑائی ختم کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ذرائع کے بقول افغان طالبان امریکی قبضے کے اٹھارہ سال مکمل ہونے پر اکتوبر میں نئی حکمت عملی کا اعلان کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب امریکی محکمہ دفاع نے افغان فوجی حکام سے کہا ہے کہ افغان فوجیوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے پینٹاگون افغان فوج کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے تاکہ افغان فوج کی تربیت میں کمی کو پورا کیا جاسکے۔ سیکریٹری دفاع جیمز میٹس نے اعلان کیا ہے کہ زلمے خلیل زاد کو محکمہ دفاع کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ واضح رہے کہ زلمے خلیل زاد ایک عرصے سے افغانستان میں امریکی سفیر تعینات تھے اور انہوں نے ہی بلیک واٹر کو افغانستان میں تعینات کیا تھا اور اب ایک بار پھر بلیک واٹر کی تعیناتی کیلئے راہ ہموار کی جارہی ہے اور افغان جنگ ٹھیکے پر دینے کی کوششیں ہورہی ہے۔ تاکہ امریکی فوجیوں کو مستقبل میں جنگی جرائم کے مقدمات سے بچایا جاسکے۔ کیونکہ افغان صوبہ قندوز میں مدرسے پر ہونے والی بمباری کے حوالے سے اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ امریکی فوج کے گلے پڑ سکتی ہے۔ ذرائع کے بقول افغانستان میں بلیک واٹر سمیت پرائیویٹ ملیشیا کا خرچہ متحدہ عرب امارات اور قطر برداشت کریں گے۔ اس سلسلے میں دونوں ملکوں کے امریکی محکمہ دفاع کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔ دوسری جانب طالبان نے قطر اور متحدہ عرب امارات کو انتباہ کیا ہے کہ وہ اس جنگ سے دور رہیں۔ بصورت دیگر قطر اور امارات کے ساتھ طالبان کے تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭