معارف ومسائل
شق القمر کے واقعے پر کچھ شبہات اور جواب:
اس پر ایک شبہ تو یونانی فلسفے کے اصول کی بنا پر کیا گیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ آسمان اور سیارات میں فرق اور التیام (یعنی شق ہونا اور جڑنا) ممکن نہیں، مگر یہ محض ان کا دعویٰ ہے، اس پر جتنے دلائل پیش کئے گئے ہیں، وہ سب لچر اور بے بنیاد ہیں، ان کا لغو و باطل ہونا متکلمین اسلام نے بہت واضح کردیا ہے اور آج تک کسی عقلی دلیل سے شق قمر کا محال اور ناممکن ہونا ثابت نہیں ہو سکا، ہاں ناواقف عوام ہر مستبعد چیز کو ناممکن کہنے لگتے ہیں، مگر یہ ظاہر ہے کہ معجزہ تو نام ہی اس فعل کا ہے، جو عام عادت کے خلاف اور عام لوگوں کی قدرت سے خارج حیرت انگیز و مستبعد ہو، ورنہ معمولی کام جو ہر وقت ہو سکے، اسے کون معجزہ کہے گا؟
دوسرا عامیانہ شبہ یہ کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا عظیم الشان واقعہ پیش آیا ہوتا تو پوری دنیا کی تاریخوں میں اس کا ذکر ہوتا، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ واقعہ مکہ معظمہ میں رات کے وقت پیش آیا ہے، اس وقت بہت سے ممالک میں تو دن ہوگا، وہاں اس واقعے کے نمایاں اور ظاہر ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا اور بعض ممالک میں نصف شب اور آخر شب میں ہوگا، جس وقت عام دنیا سوتی ہے اور جاگنے والے بھی تو ہر وقت چاند کو نہیں تکتے رہتے، زمین پر پھیلی ہوئی چاندنی میں اس کے دو ٹکڑے ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، جس کی وجہ سے کسی کو اس طرف توجہ ہوتی، پھر یہ تھوڑی دیر کا قصہ تھا، روزمرہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی ملک میں چاند گرہن ہوتا ہے اور آج کل تو پہلے سے اس کے اعلانات بھی ہو جاتے ہیں، اس کے باوجود ہزاروں لاکھوں آدمی اس سے بالکل بے خبر رہتے ہیں، ان کو کچھ پتہ نہیں چلتا، تو کیا اس کی یہ دلیل بنائی جا سکتی ہے کہ چاند گرہن ہوا ہی نہیں، اس لئے دنیا کی عام تاریخوں میں مذکور نہ ہونے سے اس واقعے کی تکذیب نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی مشہور و مستند ’’تاریخ فرشتہ‘‘ میں اس کا ذکر بھی موجود ہے کہ ہندوستان میں مہاراجہ مالیبار نے یہ واقعہ بچشم خود دیکھا اور اپنے روزنامچہ میں لکھوایا اور یہی واقعہ ان کے مسلمان ہونے کا سبب بنا اور اوپر ابوداؤو طیالسی اور بیہقی کی روایات سے بھی یہ ثابت ہو چکا ہے کہ خود مشرکین مکہ نے بھی باہر کے لوگوں سے اس کی تحقیق کی تھی اور مختلف اطراف کے آنے والوں نے یہ واقعہ دیکھنے کی تصدیق کی تھی۔(جاری ہے)
Prev Post
Next Post