تحریر کا لفظ بھی عجیب لفظ ہے۔ اسی کے ذریعے بے شمار علوم و معارف ہم تک پہنچتے ہیں۔ اسی کی عنایت سے ہم اپنے عزیزوں اور دوستوں کے خطوط پڑھتے ہیں۔ اسی کے ذریعے ہم اخبارات، میگزین وغیرہ کے ذریعے اپنے اردگرد اور دنیا میں ہونے والے واقعات سے باخبر ہوتے ہیں۔ یہ اتنی نازک چیز ہے کہ اگر اس کو احتیاط سے نہ لکھا جائے تو الفاظ اپنی اصلی صورت کھو کر کچھ سے کچھ بن جاتے ہیں۔ مثلاً ’’عجیب‘‘ کے لفظ کا اگر ’’ع‘‘ مٹ جائے تو ’’جیب‘‘ بن جاتا ہے۔ تحریر کی ’’ت‘‘ پر کوئی دھبہ لگ جائے تو ’’حریر‘‘ بن جاتا ہے۔ روشن کا نون گر جائے تو ’’روش‘‘ بن جاتا ہے۔
جس طرح تحریر کے ذریعے ہم تک علوم و فنون پہنچتے ہیں۔ اسی طرح اس کے ذریعے گمراہیاں، بے حیائی، فحاشی اور جرائم کے نت نئے طریقے بھی پہنچتے ہیں۔ اگر لکھنے والا احتیاط نہ کرے تو یہ تحریر پڑھنے والوں کے لیے ایک امتحان بن جاتی ہے۔ راقم کو ایسی درد سر قسم کی تحریروں سے اکثر واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ میرا مطلب ان تحریروں سے وہ خطوط ہیں، جو لکھنے والے اس کی بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ ان کی یہ تحریر کسی کی سمجھ میں نہ آئے۔
حد تو یہ ہے کہ وہ لفافے پر پتہ بھی اسی گھسیٹا تحریر میں لکھ دیتے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر پوسٹ مین پر رحم آتا تھا کہ وہ بے چارہ کس طرح اس خط کو اس کے پتے پر پہنچائے گا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے، جب پوسٹ مین خط گھر تک لاکر دیا کرتے تھے۔ اب پوسٹ مین یہ زحمت نہیں اٹھاتے، کیونکہ بہت سے ڈاکئے تو اچھی خاصی تحریر نہیں پڑھ سکتے، اس جنگلی تحریر کو تو کیا پڑھتے۔
مجھے اپنے بچپن کا خیال آیا۔ پہلے زمانے میں بچوں کو تختی پر حروف بنانا سکھایا جاتا تھا۔ سفید رنگ کی تختی ہوتی تھی، جس پر چاک کا سفید پائوڈر لگا ہوتا تھا۔ لکڑی کا قلم ہوتا تھا۔ اس قلم سے الف۔ ب۔ ت… وغیرہ لکھواتے تھے۔ سب سے زیادہ مشکل ج۔ ع۔ ص وغیرہ کا لکھنا ہوتا تھا اور بچوں کو پوری تختی سیکھنے میں اچھا خاصا وقت لگتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ان کی تحریر بہت سجی سجائی ہوتی تھی۔
ہمارے یہاں اسکول، کالجوں اور یونیورسٹی کے طلبا کی تحریر پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ انگریزی تحریر تو پھر بھی کچھ پڑھنے کے قابل ہوتی ہے، لیکن اردو تحریر تو بعض گریجویٹ کی بھی ایسی ہوتی ہے، جیسے کسی بچے نے لکھی ہو۔ پھر مردوں اور عورتوں کی تحریر میں بھی فرق ہوتا ہے۔ عورتوں کی تحریر میں جمائو نہیں ہوتا۔ یعنی یکسانی نہیں ہوتی۔ الفاظ کہیں چھوٹے کہیں بڑے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں تحریر کی صفائی پر نہ اساتذہ کوئی توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی طلبا اس کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنی تحریر کو پڑھنے والوں کے لیے آسان بنائیں۔
تحریر کا دینی پہلو
شرعی نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو بدخطی والی تحریر، پڑھنے والے کو مشقت اور تکلیف میں مبتلا کرتی ہے اور کسی مسلمان کو ایذا دینا حرام ہے۔ اس طرح بدخط آدمی جب بھی کسی کو خط لکھے گا یا کوئی مضمون لکھے گا، وہ بلا ارادہ ایذائے مسلم کا گناہ گار ہوگا۔ یہ شبہ نہ کیا جائے کہ جب اس نے تکلیف دینے کا ارادہ ہی نہیں کیا تو گناہ بھی نہیں ہو گا۔ یاد رکھئے۔ بری عادت کی اصلاح نہ کرنا اور ایسی عادت جس کا تعلق حقوق العباد سے ہو۔ سخت گناہ ہے۔ مثلاً ایک شخص کو بات بات میں گالی دینے کی عادت پڑی ہوئی ہے۔ وہ جب بھی کسی سے بات کرے گا، بلاارادہ گالی دے کر بات کرے گا۔ سننے والے کو ظاہر ہے اس سے تکلیف ہو گی۔ یہ ایذائے مسلم ہے۔ جو گناہ اور حرام ہے۔
ممکن ہے کوئی ذہین آدمی یہ کہے کہ جناب! یہ تحریر کا گناہ نہیں ہے، تقریر کا گناہ ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ تحریر کا نہیں، تقریر کا گناہ ہے۔ اول تو کوئی بھی تحریر ہو، وہ تقریر ہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ مثلاً ایک شخص اپنی تحریر میں کوئی ایسی بات لکھتا ہے، جو شرعاً حرام ہے۔ وہ بات اس نے کسی سے سن کر ہی لکھی ہوگی۔ آپ کہیں گے کہ ممکن ہے اس نے پڑھ کر لکھی ہو۔ ٹھیک ہے تو پھر یہ تحریری گناہ ہو جائے گا، کیونکہ جتنی بھی تحریریں ہیں، ان کا آغاز اور مبداء تقریر ہی ہوتا ہے۔ پھر کیا تقریری گناہ کی اصلاح واجب نہیں ہے؟
اسی لیے ہمارے بزرگ سب سے پہلے عادتوں کی اصلاح پر توجہ دیتے تھے۔ عادت کی مثال ایک خودکار مشین کی سی ہے۔ اچھی عادت پڑ جائے تو خواہ وہ تقریر میں ہو یا تحریر میں، وہ نیکیوں کے سکے پیدا کرتی رہتی ہے اور انسان اپنی اس عادت کی وجہ سے پوری عمر نیکیاں بلا ارادہ ہی کماتا رہتا ہے۔ یہی حال بری عادت کا ہے۔ اگر مثلاً جھوٹ کی عادت پڑی ہوئی ہے۔ غیبت
کی عادت ہے تو وہ اپنی اس عادت کی وجہ سے ساری زندگی گناہوں کے ڈھیر جمع کرتا رہے گا۔
خوش نویسی کے مقابلے
جیسا پہلے عرض کیا گیا کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں خوش نویسی کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ اب الحمد للہ ملک میں اچھی تبدیلی کی امید پیدا ہو رہی ہے۔ راقم کی تجویز ہے کہ جس طرح تعلیمی اداروں میں مختلف قسم کے مقابلے کرائے جاتے ہیں۔ خوش آوازی کے مقابلے، تقریری مقابلے، جمناسٹک کے مقابلے، ان مقابلوں میں اول، دوم، سوم آنے والوں کو انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ اسی طرح اردو میں خوش نویسی کو بھی ایک نصابی سرگرمی بنا کر اس کے مقابلے کرائے جائیں۔ دینی مدارس میں بھی یہ نصاب کا حصہ نہیں ہے۔ وہاں بھی اس مضمون کی ہمت افزائی کی جائے۔ اس طرح یہ اہم مضمون جو تمام تعلیمی اداروں میں بھلایا ہوا مضمون ہے، زندہ ہو کر علم کی زینت بن جائے گا اور طلبا و اساتذہ میں اس کا رجحان بڑھے گا اور وہ بلاارادہ ہونے والے خفیہ گناہوں سے محفوظ رہیں گے۔
بدخطی ایک ایسا چھپا ہوا گناہ ہے، جس کا گناہ ہونا بھی لوگوں کو معلوم نہیں ہے اور کسی گناہ کا گناہ ہونے سے لاعلمی خود ایک سنگین گناہ ہے۔
ایک بد خط بزرگ
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے ایک بزرگ کی حکایت لکھی ہے کہ یہ بزرگ بہت سادہ اور نیک آدمی تھے۔ ان کا خط نہایت درجہ خراب تھا۔ ان کے معاصر ان کی تحریر پر طعن کرتے ہوں گے۔ ایک دن بازار سے گزر رہے تھے۔ کسی دکان پر ان سے بھی زیادہ برے خط کی، کتاب نظر سے گزری۔ اس کو دیکھ کر خیال آیا کہ یہ تو مجھ سے بھی زیادہ برے خط والی کتاب ہے۔ بڑی قیمت دے کر یہ کتاب خریدی اور خوش تھے کہ اعتراض کرنے والے دیکھیں گے کہ مجھ سے بھی زیادہ برے خط لکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ گھر آگئے اور کتاب کا مطالعہ شروع کیا۔ یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ یہ کتاب بھی میری ہی لکھی ہوئی ہے، جو انہوں نے اپنی عمر کی ابتدا میں لکھی تھی۔
حضرت تھانویؒ نے یہ حکایت نقل کر کے فرمایا: ’’کیسی سادگی کی بات ہے کہ اس کو بھی ظاہر فرما دیا۔ اگر ظاہر نہ فرماتے تو کسی کو کیا خبر ہوتی۔ تصنع تو بڑوں میں ہوتا ہی نہیں۔‘‘ دیکھئے حضرت تھانویؒ نے ان بزرگ کے اس واقعے میں ان کی بدخطی پر کوئی تبصرہ کرنے کے بجائے ان کی سادگی کا ذکر فرمایا۔ بزرگوں کے ادب کا یہی طریقہ تصوف کی روح ہے۔
کاتب اور ناشر کی غلطیاں
بعض کاتبوں کی تحریر اور بعض ناشروں کی طباعت بھی تحریر کی غلطیوں کا نمونہ ہوتی ہے۔ یوں تو اس طرح کی کئی کتابیں ہیں، جن میں کاتب صاحب نے تحریر میں بخل سے کام لیا ہے۔ اس کی ایک مثال تو میرے سامنے ہے۔ یہ مواعظ الشرفیہ ہے۔ 13 جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کی تین جلدیں اس وقت بھی میری میز پر موجود ہیں، اسے مکتبہ تھانوی سے مولانا عبد المنان صاحبؒ نے شائع کیا ہے۔ یہ ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ اس کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے۔ مولاناؒ ایک رسالہ الابقاء کے نام سے ماہانہ شائع کرتے تھے۔ اس کا مقصد صرف حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے مواعظ شائع کرنا تھا۔ مکتبہ تھانوی ایم اے جناح روڈ (پرانا بندر روڈ) پر ہاشمی عطر والے کی دکان کے برابر تھا۔ یہی رسالہ الابقاء کا دفتر بھی تھا۔
مولانا بڑے سادہ بزرگ تھے۔ راقم پر بڑی شفقت فرماتے تھے۔ ان کی سادگی رسالے کے ہر ورق سے ظاہر ہوتی تھی۔ یہ غالباً اخباری کاغذ پر چھپتا تھا اور صرف چند صفحات پر مشتمل تھا۔ اگر وعظ کے درمیان صفحات پورے ہو جاتے تو عبارت کو ادھورا چھوڑ کر رسالہ ختم کر دیتے تھے اور طباعت کے لیے پریس میں بھیج دیتے تھے۔ ان کا کاتب بھی یا تو ان سے بھی زیادہ سادہ تھا یا پھر مولاناؒ کی سادگی سے بھرپور فائدہ اٹھاتا تھا۔ ان کے قلم کے بارے میں سب سے اچھا تبصرہ راقم کے سب سے بڑے بھائی مولانا محمد زکی کیفیؒ کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ ایسا لگتا ہے یہ کاتب قلم کے بجائے سینک سے لکھتا ہے۔
پروف ریڈنگ پر زیادہ وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔ ناشر صاحب بھی پریس کی روشنائی زیادہ ضائع نہیں کرتے تھے۔ اگر پریس نے ایک آدھی سطر خالی چھوڑ دی تو وہ اس کے لیے پورا فارم ردی میں نہیں ڈالتے تھے۔ یہ 13 جلدوں کا سیٹ میرے مطالعہ میں رہتا ہے۔ اس کا کاغذ کریم رنگ کا ہلکا زرد ہے۔ یا زمانہ گزرنے کی وجہ سے اس کی سفیدی وقت نے اڑا لی ہے۔ مطالعے کے دوران حروف تو جگہ جگہ سے کٹے ہوئے ہیں۔ مگر بعض مقامات پر آدھی سطر غائب ہے تو راقم کو اس کے سیاق و سباق کو دیکھ کر اپنی ’’قابلیت‘‘ سے کام لینا پڑتا ہے۔ بعض جگہوں پر حروف کے غائب ہونے کی وجہ سے پڑھنے والا سنگین شرعی غلطیاں کر سکتا ہے۔ حق تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے کہ ان سب سادگیوں کے باوجود وہ اتنا بڑا ذخیرہ امت کو دے گئے۔ اگر الابقاء رسالہ نہ ہوتا تو یہ ذخیرہ بھی نہ ہوتا۔ کتنے سال رسالے کو جاری رکھنے میں لگے ہوں گے کہ 13 جلدوں پر مشتمل مواعظ اشرفیہ ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ کتابت اور طباعت کی غلطیوں کا ازالہ تو غالباً ہو بھی گیا ہو گا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔
Prev Post