دھوکہ (آخری حصہ)

0

ناصر رضوان خان ایڈووکیٹ
ہمارے ایک قریبی عزیز جو ملک کے نامور ماہر نفسیات اور سائیکاٹرسٹ ہیں، جب انہوں نے میری بیٹی کو دیکھا تو وہ حیران رہ گئے۔ جن کی نظر میں بیٹی ایک مثالی خود اعتمادی کی حامل، پر جوش اور خوشگوار شخصیت کی زندہ مثال تھی۔ وہ اب چند ماہ کے بعد ان تمام خوبیوں سے خالی ایک انسانی ہیولہ تھی۔ زرد چہرے اور خالی خالی نگاہوں سے وہ کسی اور سیارے کی مخلوق لگتی تھی۔ انہوں نے اس کی تھراپی شروع کی اور دو تین دن میں ہی اس کو آگے کا راستہ سمجھانے کی کوشش کی، جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوگئے، لیکن تکلیفوں اور مشکلات کا مزید سامنا میری بیٹی کی تقدیر میں لکھا تھا۔ رمضان شروع ہوا تو پتہ چلا کہ میرے داماد کی نوکری ختم ہوگئی ہے۔ وہ اس بڑے ادارے میں صرف چھ ماہ کیلئے تھا، یعنی کونٹریکٹ پر اور اس موقعہ کو غنیمت جان کر اس کی والدہ نے شادی فوری کروائی اور میری بیٹی سے کہا کہ ’’تمہارے والدین کو جلدی تھی اپنے بیٹے کے پاس جانے کی، اس لئے انہوں نے چٹ منگنی پٹ بیاہ کردیا۔ اس پر میری بیٹی نے ان سے کہا کہ آپ نے فلائٹ کا ٹائم ٹیبل ایسا دیا تھا کہ آپ کیلئے رکنا ممکن نہیں تھا اور اپنی روانگی سے قبل آپ اس کارخیر سے فارغ ہونا چاہتی تھیں۔ میرے والدین سے بیشک یہ غلطی ہوئی کہ وہ آپ کے بیانات کو سچ سمجھتے رہے۔ یہ صاف جواب بدتمیزی لگا اور شاید اسی وقت ہی میری سنگدل سمدھن نے اپن بہو سے بدلا لینے کا سوچ لیا۔ وہ زبان جس سے وہ قال اللہ و قال الرسولؐ ادا کرتی تھیں، اب مغلظات بکنے لگی۔ وہ جو کبھی کہا کرتی تھیں کہ تمہارے والدین تو ایسے ہیں کہ ان کو دیکھ کر دل کو سکون ملتا ہے، اب کہتی ہییں: ارے سب مجھے منع کرتے رہے کہ معذوروں اور بیماریوں کی بیٹی مت لاؤ، مگر میں ترس کھا کر تم کو لے آئی۔‘‘ میری بیٹی کیلئے یہ جملہ بہت بڑا روحانی حملہ تھا۔ وہ اپنے ماں باپ کی عاشق تھی۔ وہ اس سے بڑے بڑے جملہ سنتی، کبھی وہ چپ ہو جاتی، کبھی اپنی ہمت کے مطابق جواب دینے کی کوشش کرتی۔ کبھی اس سے کہا جاتا کہ اگر تمہاری قسمت میں طلاق ہے تو سمجھ لو کہ لوگ تمہیں کیش کرائیں گے اور استعمال کرکے پھینک دیں گے۔ کبھی ان کا فرمان ہوتا کہ تم طلاق کا لیبل ماتھے پر سجا لینا، مگر میرا بیٹا تو ویسا ہی چمکتا دمکتا رہے گا۔ اس کی اگلی بیوی تمہاری طرح صرف قبول صورت نہیں، بلکہ خوبصورت ہوگی۔ جبکہ اس سے پہلے ان کا کہنا تھا کہ ان کی بہو ان پر ہے۔ یعنی انتہائی خوب صورت، خوش ذوق اور زندہ دل۔ وہ اپنی گفتگو میں ایسے الفاظ استعمال کرتیں، جن کے مطلب سے وہ واقف نہ ہوتیں۔ وہ انہوں نے کسی ناول یا افسانے میں پڑھے ہوتے یا پھر کسی فلم یا ڈرامے کا مکالمہ ہوتے۔ بعض تو اپنے استعمال میں اتنے لچر اور متروک ہوتے کہ ان کا ادا کرنا ہی معیوب بات ہے۔ میری بیٹی کو خدا نے ماں بننے کا اعزاز بخشا اور اپنے حکم سے بیٹی کی رحمت سے نوازا۔ تو ان کے غصے اور بہو سے نفرت میں اضافہ ہوگیا۔ گو کہ میرے داماد کو وطن واپس کر معقول نوکری مل گئی تھی۔ لیکن اس میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اس سب پر مستزاد یہ کہ وہ بہن جو دور رہنے والے بھائی بھاوج پر صدقہ واری ہوتی تھیں، اب دشمنی پر اتر آئی تھیں۔ کیونکہ پچھلے چھ سات سال سے وہ اکیلی ماں کی رہائش گاہ پر سکون کی زندگی گزار رہی تھیں۔ اب اچانک بھائی مع فیملی اس میں در انداز ہوگئے۔ ان کی کوشش تھی کہ بھائی بھاوج الگ ہو جائیں۔ پہلے تو میرا داماد میری بیٹی پر روحانی کچوکے لگاتا تھا۔ اب جسمانی تشدد پر اتر آیا۔ اس نے نہ صرف میری بیٹی کے منہ پر اتنے تمانچے مارے کہ اس کے ہونٹ سے خون رسنے لگا اور چہرہ سوج گیا، بلکہ اپنی دو ماہ کی بیٹی کو بھی دو تھپڑ رسید کردیا۔ اس سے پہلے کی داستان تو میں مختصراً آپ کو بتا چکی ہوں، لیکن یہ جسمانی تشدد یقیناً ماں اور بہن کے بھڑکانے کا نتیجہ ہو سکتا تھا۔ ہم سب اس کو فوری طور پر واپس لانا چاہتے تھے۔ لیکن میری صابر اور ثابت قدم بیٹی نے کہا کہ وہ ان کو آخری موقعہ اور دینا چاہتی ہے۔ اگر اگلی دفعہ بھی مار پیٹ کا سلسلہ جاری رہا تو وہ فوراً گھر چھوڑ دے گی۔ حالات میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی۔ ٹھیک دو ماہ بعد میرے داماد نے تواتر سے شدید جسمانی تشدد شروع کیا تو میری بیٹی نے اس کا گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ صبح کو اس نے فون کرکے ڈرائیور کو بلایا اور اس کے ساتھ ہمارے پاس آگئی۔ اس واقعہ کو دو ماہ ہوگئے ہیں۔ میری بیٹی کی ساس دو دفعہ امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے دورے پر جا چکی ہیں، لیکن اس عرصے میں انہوں نے ایک دفعہ بھی نہ بہو کو پوچھا نہ پوتی کو۔ میری نواسی اور بیٹی کی ضروری اشیا اسی گھر میں ہیں۔ میری بیٹی اپنی ممانی کے ساتھ کچھ ضروری اشیا لینے گھر گئی تو بہن نے دروازے سے ہی اس کو جانے کیلئے کہہ دیا اورکہا ’’مجھے خود افسوس ہے، لیکن بھائی اور امی کی اجازت نہیں کہ تم کو اندر آنے دیا جائے۔‘‘
معزز قارئین! اس کے آگے تحریر آنسوؤں سے اتنی بھیگی ہوئی ہے کہ مجھے بھی پڑھنا محال ہے۔ کیا جبر کی اس کہانی کا کوئی اختتام ہے، آپ ہی بتایئے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More