وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد عمران خان اتوار کو پہلی مرتبہ کراچی پہنچے تو ایئر پورٹ لاؤنج میں گورنر اور وزیراعلیٰ سندھ سے مختصر ملاقات اور کراچی و سندھ سمیت ملکی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ اس کے بعد انہوں نے گورنر عمران اسماعیل اور وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے ساتھ مزار قائد پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔ وزیراعظم کی مزار قائد پر حاضری اپنا منصب سنبھالنے کے بعد ایک ماہ کی تاخیر سے ہوئی، جسے سیاسی حلقوں نے یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا کہ عمران خان اپنی ہر تقریر اور گفتگو میں پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے اصول و نظریات کے مطابق چلانے کا عزم دوہراتے ہیں تو انہیں مزار قائد پر حاضری میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے تھی۔ اسی طرح پاکستان کے اکثر حکمرانوں کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ برسر اقتدار آتے ہی جلد از جلد حرمین شریفین جانے، عمرہ ادا کرنے اور سعودی حکام سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان گہرے دینی و برادرانہ جذبات کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔ مسلم دنیا میں ان دونوں ملکوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ حرمین شریفین کی وجہ سے سعودی عرب مسلمانان عالم کا روحانی مرکز ہے تو ایٹمی اثاثوں، بہترین فوجی قوت اور قدرتی و انسانی وسائل کی کثرت کے لحاظ سے پاکستان مسلم ممالک کے لئے قائدانہ صلاحیت کا حامل ملک تصور کیا جاتا ہے۔ دیر آمد درست آمد، بہرحال وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب کے دورے کا پروگرام بھی بنالیا ہے۔ امید ہے کہ وہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ اہم مذاکرات، دو طرفہ اور عالمی امور پر تبادلہ خیال اور امت مسلمہ کے مشترکہ مسائل پر غور کے علاوہ حرمین شریفین کی زیارت و حاضری سے روحانی طور پر بھی فیضیاب ہونے کی کوشش کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورئہ کراچی میں کچھ رسمی و روایتی باتیں کیں تو بہت سے نئے خیالات و اقدامات کا اعلان بھی کیا۔ انہوں نے کراچی کی ضروری اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے اس کی ترقی کو قومی خوشحالی سے تعبیر کیا اور کراچی کے مسائل حل کرنے کے لئے حکومت سندھ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عندیہ دیا۔ گرینڈ ڈیمو کرٹیک الائنس نے جو وفاق میں برسر اقتدار جماعت کا اتحادی ہے، وزیراعظم کی توجہ مبذول کرائی کہ ایم کیو ایم کی خوشنودی کے لئے انہوں نے صرف کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کی بات کی ہے، جبکہ یہ پورے صوبہ سندھ کے لئے ہونی چاہئے۔ عمران خان نے اس شکایت کو غور سے سنا اور اس پر توجہ دینے کا وعدہ کیا۔ وزیراعظم عمران خان کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ تبدیلی اوپر سے نیچے آتی ہے۔ حکمران تبدیل ہوں گے تو عوام میں بھی تبدیلی آئے گی۔ اس کے نتیجے میں قرض بھی اترے گا اور ڈیم بھی بنیں گے۔ وزیراعظم نے اپنے دورئہ کراچی میں اہم ترین اعلان یہ کیا کہ کراچی میں پیدا ہونے والے بنگالیوں اور افغانوں کو شہریت دی جائے گی۔ انہیں شناختی کارڈ اور پاکستانی پاسپورٹ جاری کئے جائیں۔ شناخت اور روزگار سے محروم رہ جانے والے طبقات میں جرائم کا بڑھنا ایک فطری امر ہے، تاہم اس سلسلے میں سندھ کے قدیم باشندوں کے تحفظات اور ہر کہ و مہ کو غلط طور پر پاکستان کی شناخت جاری کرنے سے روکنے پر توجہ دینی ہوگی۔ کراچی میں اسٹریٹ کرائمز، بجلی، پانی، گندگی کے معاملات گرین لائن بس اور سرکلر ریلوے کے منصوبے فوری توجہ کے طالب ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی مسئلہ باآسانی حل ہوسکتا ہے۔ اس لئے کہ شہر کے پاس وسائل کی قلت ہے نہ تعلیم یافتہ، تجربہ کار اور ہنر مند افرادی قوت کی کوئی کمی۔ جو شہر قومی خزانے میں ستر فیصد تک جمع کراتا ہے، وہ خود بنیادی ضرورتوں سے محروم رہے تو یہ قابل افسوس ہی نہیں شرمناک بھی ہے۔ کراچی ایک طرف منی پاکستان ہے، جہاں روزگار کی تلاش میں ملک بھر سے آکر لوگ آباد ہوتے ہیں تو دوسری طرف عالمی برادری اس شہر کو معیار بنا کر پاکستان کی ترقی یا پسماندگی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرتی ہے۔ کراچی میں ہر چوراہے پر، گلی بازاروں میں اور جگہ جگہ کوڑا چنتے، بھیک مانگتے اور منشیات کے عادی گندے لوگوں کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ کسی فلاحی ریاست کا اہم ترین مرکز ہے۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے مل کر کراچی کو قتل و غارت، بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کا گہوارہ بنا دیا تھا، اب اسے دوبارہ ’’عروس البلاد‘‘ بنانے کی ضرورت ہے اور شاید اس کا وقت بھی آگیا ہے۔ اللہ کرے کہ اہل شہر کی یہ خوش گمانی قائم رہے اور جلد ہی حقیقت کا روپ بھی دھارلے۔
صدر عارف علوی مٹی کے مادھو ثابت نہیں ہوں گے
نو منتخب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پیر کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ وہ ملک کے تیرھویں صدر ہیں، مسلم لیگ کے ارکان نے ان کے خطاب کا بائیکاٹ کیا اور ایوان سے باہر نکل آئے۔ ان کے ساتھ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) کے ارکان بھی تھے۔ اپنے پہلے خطاب میں ڈاکٹر عارف علوی بڑے پر اعتماد اور پر عزم نظر آئے۔ ارکان پارلیمان نے ان کا خطاب پوری خاموشی اور توجہ سے سنا اور تالیاں بھی بجائیں۔ صدر مملکت نے اس یقین کا اظہار کیا کہ پاکستان کا مستقبل ماضی اور حال سے بہتر ہوگا۔ انہوں نے کرپشن پر قابو پانے، حکمرانوں کو غیر ضروری پروٹوکول دینے کا سلسلہ ختم کرنے اور کفایت شعاری اپنانے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ کامیابی کے لئے سادگی اختیار کرنا ضروری ہے۔ اداروں کو مضبوط بنائے اور نظام احتساب کو برقرار رکھے بغیر وطن عزیز کو کرپشن سے پاک نہیں کیا جاسکتا۔ گروہی مفادات اور بے انتہا لوٹ کھسوٹ قومی تنزل کے سب سے بڑے اسباب ہیں۔ ان پر قابو پایا گیا تو نئے پاکستان کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا۔ صدر عارف علوی نے امن و امان، پانی و بجلی کی قلت اور اقتصادی ترقی سمیت کئی امور پر اظہار خیال کیا۔ آئین پاکستان کی رو سے صدر کا عہدہ بظاہر ایک علامتی منصب ہے۔ تاہم ملک کے سربراہ تینوں اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے وہ حکومت سمیت تمام قومی اداروں اور شخصیات کو مشورے دینے اور ہدایات جاری کرنے کے بہت سے اختیارات رکھتے ہیں، لہٰذا ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ان کی نگرانی اور رہنمائی کو کلیتاً نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ امید ہے کہ ڈاکٹر عارف علوی چوہدری فضل الٰہی، رفیق تارڑ اور ممنون حسین خان جیسے مٹی کے مادھو بنے رہنے کے بجائے اپنی شخصیت، صلاحیت اور تجربے کی بنیاد پر وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کو راہ راست پر رکھنے کی کوشش اور رہنمائی کرتے رہیں گے۔
٭٭٭٭٭