کراچی کے قومی اسبلی کے 8 حلقوں این اے 244، این اے 241، این 254، این اے 249، این اے 239، این اے 250، این اے 251 اور این اے 238 میں واقع پنجابی، پختون اور ہزارہ وال کی بڑی آبادیوں کے مکینوں کی اکثریت مذہبی جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دینے کی خواہاں ہے جن میں متحدہ مجلس عمل، تحریک لبیک پاکستان اور راہ حق پارٹی شامل ہیں۔ جبکہ انہی آبادیوں میں دوسرے نمبر پر جن سیاسی جماعتوں کو فوقیت دی جارہی ہے ان میں تحریک انصاف، جی ڈے اے اور مسلم لیگ (ن) کے امیدوار شامل ہیں۔ ان آبادیوں کے رہائشیوں کی اکثریت ماضی میں عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتی رہی ہے۔ تاہم ان علاقوں میں پانی، سیوریج، صحت و صفائی اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں ماضی میں منتخب ہونے والے نمائندے ناکام رہے، جس کی وجہ سے ان آبادیوں میں نئے امیدواروں کو آزمانے کا رجحان پیدا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے اختر کالونی میں جی ڈی اے کے امیدوار عرفان اللہ مروت کو بھی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ حمایت مل رہی ہے۔
اس ضمن میں ’’امت‘‘ کی جانب سے ان آبادیوں میں ووٹرز کے رجحانات کو جانچنے کے لئے خصوصی سروے کیا گیا جس میں معلوم ہوا کہ کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 244 کے بیشتر ووٹرز نے تحریک لبیک کو ووٹ دینے کی ٹھان لی ہے۔ این اے 244 کی عوام کی بڑی تعداد کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں نے تمام پارٹیوں کو ووٹ دے کر دیکھ لیا۔ کسی نے بھی علاقے میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کرایا ہے۔ تحریک لبیک پاکستان نے عقیدہ ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کی سازش ناکام بنادی تھی، اسی لیے علاقے کے عوام تحریک لبیک کو ہی ووٹ دے گی۔ این اے 244 کے علاقے اعظم بستی اور اختر کالونی کا سروے کیا گیا تو ایک موٹر سائیکل مکینک عبدالجبار نے بتایا کہ اس نے 2013ء میں پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا تھا لیکن پیپلز پارٹی نے علاقے کیلئے کوئی کام نہیں کیا۔ اسی لیے میں نے سوچھاہے کہ ووٹ صرف تحریک لبیک پاکستان کو دوں گا کیونکہ یہ وہ جماعت ہے جو اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں اسلامی نظام نافذ کرے گی۔‘‘ کے الیکٹر ک کے ملازم محمد شہزاد نے بتایا کہ ’’صوبائی اسمبلی کے حلقہ 104 سے جی ڈی اے کی طرف سے کھڑے ہونے والے عرفان اللہ مروت کو ووٹ دوں گا۔ کیونکہ عرفان اللہ مروت نے اپنے دور میں علاقے کے بے روز گار نوجوانوں کو فری میں نوکریاں دی تھی اور علاقے میں بہت کام کرایا تھا۔ اسی لیے ہمارا پورا خاندان عرفان اللہ مروت کو ووٹ دے گا۔‘‘ محمد علی نے بتایا کہ ’’اختر کالونی کی آبادی تقریباً 80 ہزار سے زائد گھروں پر مشتمل ہے اور تمام گھروں میں رہائش پذیر دو سے چار لوگ بے روز گار ہیں۔ جن لوگوں کے پاس پیسے تھے انہوںنے سعید غنی کے بھائی فرحان غنی کو پیسے دے کر نوکریاں حاصل کرلی ہیں۔ اسی لئے ہم لوگ تحریک لبیک پاکستان کے امیدواروں کو ووٹ دیں گے تاکہ اسلامی نظام نافذ ہوسکے اور بے روزگار لوگوں کو بغیر پیسے دیئے نوکریاں مل سکیں۔‘‘ اختر کالونی کے رہائشی چوہدری نذیر احمد گجر نے بتایا کہ ’’پیپلزپارٹی نے علاقے میں کوئی کام نہیں کرایا اور نہ ہی صاف پانی کا مسئلہ دور کیا۔ اس آبادی کے مکین برسوں سے پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں جو انہیں ماضی میں منتخب ہونے والوں نے فراہم نہیں کیا۔ اس لئے میں اپنا ووٹ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کو دوںگا۔‘‘ علاقہ کے دیگر رہائشی شکیل، فرید اور سکندر کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے امیدوار ایک ہی جیسے ہیں۔ علاقے کے ہزاروں افراد پانی، سوریج اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ اسی لئے وہ لوگ تحریک لبیک پاکستان کے امیدواروں کو ووٹ دیں گے۔ قیوم آباد کے رہائشی عطا اللہ، رفیع اللہ اور فراز نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہم لوگوں نے پچھلی بار پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار اسلم یار کو ووٹ دیا تھا لیکن انہوں نے علاقے میں ہمارا سب سے بڑا پانی کا مسئلہ حل نہیں کرایا۔ اس لئے ہم کسی نئی پارٹی کو آزمائیں گے۔
حلقہ این اے 241 کے علاقے قیوم آباد میں سیوریج کا نظام بری طرح تباہ ہے، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ قیوم آباد کے رہائشی ولی، افضل اور یاور نے بتایا کہ علاقے میں ایک ایک ہفتے بعد گھروں سے کچرا اٹھانے کیلئے سوئپر آتا ہے اور وہ گھروں سے کچرا اٹھانے کے بعد قریب میں ہی واقع کچرا کنڈی میں پھینک دیتا ہے، جہاں پر ہفتے یا مہینوں کچرا پڑا رہتا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں نے پچھلے سال پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیئے تھے لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار نے کئی وعدے کیے تھے لیکن ہمارے علاقے میں کوئی کام نہیں کرایا جس کی وجہ سے ہم لوگ اس بار کسی اور پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ این اے 214 قیوم آباد قبرستان کے قریب کھلے عام منشیات فروشی سے علاقے کی نوجوان نسل تباہ ہورہی ہے۔ علاقہ مکین وسیم گجر نے بتایا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دیں گے کیونکہ بھٹائی کالونی میں نواز لیگ کا کونسلر منتخب ہوا تو اس نے پانی کا مسلہ حل کرا دیا تھا۔ ندیم عباس کا کہنا تھا کہ صوبائی اسمبلی پی ایس 97 سے کھڑے ہونے والے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے امیدوار وقار حسین شاہ نے کارنر میٹنگ میں کہنا شروع کردیا ہے کہ علاقہ مکین کسی کو بھی ووٹ دیں، جیت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی ہی ہوگی۔
اسی طرح این اے 254 کے پی ایس 125کے علاقے سہراب گوٹھ مدینہ کالونی اور NA-250 کے پی ایس 120 کے علاقے بنارس کالونی، سہراب گوٹھ اور مدینہ کالونی کے سروے کے دوران سہراب گوٹھ مدینہ کالونی کے مکین مستقیم کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے علاقے میں ضروریات زندگی کی تمام سہولیات نا پید ہیں اور کبھی بھی اقتدار میں آنے والے عوامی نمائندوں کو یہ خیال نہیں آیا کہ اس علاقے میں بھی انسان بستے ہیں۔ اس لئے اس بار مجھ سمیت علاقے کے زیادہ تر لوگوں نے متحدہ مجلس عمل کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ جان عالم کا کہنا تھا کہ ’’ہم لوگ مولانا سراج الحق کی وجہ سے ووٹ ایم ایم اے کو دیں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اسی جماعت میں ایماندار لوگ موجود ہیں جو ہمارے دکھ درد کا مداوا کر سکتے ہیں۔‘‘ ایک اور رہائشی عجب خان نے بتایا کہ ’’پہلے میں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا تھا جس پر میں آج تک پچھتا رہا ہوں۔ اس لئے اس بار میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنا اور اپنے اہلخانہ جن کی تعداد 7 ہے، ان کا ووٹ متحدہ مجلس عمل کو جائے گا۔‘‘ جان علی کا کہنا تھا کہ ’’میں ایک مزدور پیشہ شخص ہوںاور اتنا کما پاتا ہوں کہ اپنے اہلخانہ کا پیٹ پال سکوں۔ اس بار میں نے فیصلہ کیا ہے کہ متحدہ مجلس عمل کو ووٹ دوں گا۔‘‘ عبدالغفار کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے پہلے بھی ووٹ جماعت اسلامی کو دیا تھا اور اس بار بھی ہمارا ووٹ جماعت اسلامی کی وجہ سے متحدہ مجلس عمل کو ہی ملے گا۔‘‘ حسین خان اور تیمور خان کا کہنا تھا کہ ہم پہلے بھی جماعت اسلامی کے ووٹر تھے، اور اب بھی ایم ایم اے کو ووٹ دیں گے۔ سید رحمان کا کہنا تھا کہ ’’اس بار پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دوں گا۔ کیونکہ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ عمران خان کس طرح کا نیا پاکستان بنانا چاہتا ہے۔‘‘ محمد مرید کا کہنا تھا کہ ’’میرا ووٹ اس بار پیپلز پارٹی کو جائے گا۔ پچھلی بار میں نے ووٹ متحدہ قومی موومنٹ کو دیا تھا جس پر میں آج تک پچھتا رہا ہوں۔‘‘ مدینہ کالونی سہراب گوٹھ کے ایک اور رہائشی جمروز کا کہنا تھا کہ ’’میں نے پہلے بھی جماعت اسلامی کو ووٹ دیا تھا اور اس بار بھی متحدہ مجلس عمل کو مولانا سراج الحق کی وجہ سے ووٹ دوں گا۔‘‘ سلیم خان کا کہنا تھا کہ ’’ہمارا ووٹ شروع سے ہی ایم ایم اے کا ہے اور اس بار بھی ہم ایم ایم اے کو ہی ووٹ دیں گے۔‘‘ دیگر علاقہ مکینوں مسل خان، حسن جان، سعد، اختر علی، امجد، عبدالقادر، نعمان، مجیب اور اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اپنے دیرینہ مسائل حل کرانے کی خاطر وہ لوگ متحدہ مجلس عمل کو ووٹ دیں گے۔
بنارس کالونی کے ایک تاجر بادشاہ خان کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے پہلے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا تھا۔ مگر اس نے بنارس کے مکینوں کیلئے کوئی بھی ترقیاتی کام نہیں کئے۔ اس لئے اس بار ہم نے ایم ایم اے کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ محمد عارف کا کہنا تھا کہ ’’ہم پہلے بھی جماعت اسلامی کو ووٹ دیتے تھے اور اس بار بھی جماعت اسلامی کی وجہ سے ایم ایم اے کو ووٹ دیں گے‘‘۔ رحمت علی کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا، جن کا منتخب نمائندہ اب پی ایس پی میں شامل ہو چکا ہے اور اس نے کبھی علاقے کے مسائل کو حل کرنے کے بارے میں کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی۔ اس لئے اس بار ہم اے این پی کو ووٹ دیں گے‘‘۔ حضرت علی، کاشف، دلاور خان، سمیع اللہ، طارق اور علی احمد کا کہنا تھا کہ ان کا ووٹ اب بھی جماعت اسلامی کی وجہ سے ایم ایم اے کو جائے گا۔
کراچی کے قومی حلقے این اے 238 میں تین سیاسی جماعتوں میںکانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔ جبکہ حلقے کی دو صوبائی نشتوں پر سیاسی جماعتوں کے نا مزد امید واروں کے ساتھ آزاد امیدوار بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ امت سروے کے دوران این اے238 کی پی ایس91 کے مکینوں کا کہنا تھا کہ 40 سال سے قائد آباد، لانڈھی، مظفر آباد، شیر پاؤ کالونی، مانسہرہ کالونی اور مسلم آباد کالونی کی کچی آبادیوں میں کو ئی بنیادی سہولیات میسر نہیں۔ مذکورہ حلقے کے پی ایس91 کے رہائشی شریف زادہ کا کہنا تھا کہ ’’الیکشن 2013 ء میں قومی اسمبلی کا ووٹ مسلم لیگ (ن) کے نامزد امیدوار عبدالحکیم بلوچ کو دیا تھا اور صوبائی اسمبلی کا ووٹ مولانا اورنگزیب فاروقی کو کاسٹ کیا تھا۔ عبدالحکیم بلوچ بعد میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ اس بار میں قومی اسمبلی کیلئے مولانا اورنگزیب فاروقی اور صوبائی اسمبلی کی نشت کے امید وار متحدہ مجلس عمل کے مولانا احسان اللہ ٹکروی کو ووٹ دوں گا۔‘‘ نذیر عرف استاد کا کہنا تھا کہ ’’یہاں سے منتخب ہونے والے سیاسی جماعتوں کے امیدوار ایک ڈسپنسری تک نہیں بنا سکے کہ علاقہ مکینوں کو کوئی سہولت میسر ہوسکے۔ اس لئے اس بار راہ حق پارٹی یا ایم ایم اے کے نامزد امیدواروں کو ووٹ دوں گا۔‘‘ نیاز محمد اور فضل رحمان کا کہنا تھا کہ وہ ایم ایم اے کو ووٹ دیں گے۔
این اے 249 بلدیہ ٹاؤن کی پنجابی پختون آبادی کے بیشتر ووٹرز نے نواز لیگ کے حق میں رائے دی۔ حلقہ انتخاب میں تحریک لبیک اور مجلس عمل بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ این اے 249 کے مختلف علاقوں میں بلدیہ سیکٹر 4، گلشن غازی، سیکٹر 8 ، عابد آباد ، ہزارہ جدہ کالونی، اتحاد ٹاؤن، بلدیہ سیکٹر 9 اور سیکٹر 12 شامل ہیں۔ بلدیہ ٹاؤن سیکٹر 4 کے رہائشی شوکت علی، محمد حسین، صفدر محمد، سیکٹر 4 سی کے رہائشی سجاول، سیکٹر 17 کے رہائشی توصیف محمد سیکٹر 4 ای کے رہائشی ندیم مقبول اور سیکٹر 4 بی کے رہائشی عبدالصمد شیخ نے نواز لیگ کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلدیہ سیکٹر 4 سی کے رہائشی حسن جاوید پیپلز پارٹی کو ووٹ دیںگے۔ ہزارہ جدہ کالونی کے رہائشی اور اسکول ٹیچر محمد جنید تحریک لبیک کو ووٹ دیں گے۔ بلدیہ بسم اللہ چوک کے رہائشی ظاہر شاہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنا ووٹ تحریک انصاف کے امیدوار کو دیں گے۔ بلدیہ سیکٹر 4I کے رہائشی حبیب شاہ کا کہنا تھا کہ وہ نواز لیگ کو ووٹ دیں گے۔ جدہ ہزارہ کالونی میں واقع جامع مسجد مکہ کے امام مولانا محمد ظاہر شاہ نے بتایا کہ وہ مجلس عمل کو ووٹ دیں گے۔ اسی طرح گلشن غازی میں واقع مدرسے عمر فاروق کے مہتمم مولاناحسین احمد نے بھی مجلس عمل کو ووٹ دینے کا بتایا۔ بلدیہ سیکٹر8 بی کے رہائشی حافظ شاہد نواز لیگ کے حامی نکلے جبکہ سیکٹر 8 ڈی کے رہائشی محمد ایوب بھی شہباز شریف کو ووٹ دیں گے۔ سیکٹر 8 سی کے رہائشی محمد زبیر تحریک انصاف کے حامی نکلے۔ پریشان چوک کے رہائشی اور ٹرک ڈرائیور فیاض تنولی نواز لیگ کو ووٹ دیں گے۔
این اے 239 میں پنجابی پختون آبادی کے ووٹرز کی اکثریت نے مجلس عمل کے حق میں رائے دی۔ حلقہ انتخاب میں نواز لیگ دوسرے اور تحریک انصاف تیسرے نمبر پر ہیں۔ این اے 239 کے مختلف علاقوں میں گرین ٹاؤن، گولڈن ٹاؤن، پنجاب ٹاؤن اور عظیم پورہ شامل ہیں۔ یہاں رہائش پذیر ووٹرز نے بھی عام انتخابات میں حلقے سے مجلس عمل کے امیدواروں کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ مذکورہ آبادی میں نواز لیگ اور تحریک انصاف کے امیدوار بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ مذکورہ علاقوں میں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد سے ان کی رائے لی گئی تو 51 فیصد ووٹرز نے مجلس عمل کے امیدواروں کے حق میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ ان علاقوں میں نون لیگ کے 26 اعشاریہ 6 فیصد، تحریک انصاف کے 10 فیصد اور تحریک لبیک کے 2 فیصد اور پیپلز پارٹی کا ایک فیصد ووٹرز موجود ہیں۔ امت سروے کے دوران گولڈن ٹاؤن کے رہائشی وکیل جو پیشے کے اعتبار سے رکشہ ڈرائیور ہے، نے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں انہوں نے مسلم لیگ ن کو ووٹر دیا تھا تاہم اس بار ایم ایم اے کو ووٹ دیں گے۔ مذکورہ علاقے کے رہائشی اور جنرل اسٹور چلانے والے عبید اور حبیب اللہ کا کہنا تھا کہ وہ تحریک انصاف کو ووٹ دیں گے۔ ایک اور رہائشی اور سیکورٹی گارڈ جمیل احمد، گرین ٹاؤن میں بک اسٹال کے مالک فضل احمد نے کہا کہ وہ مجلس عمل کو ووٹ دیں گے۔ طالب علم دانیال احمد نے کہا کہ شناختی کارڈ بننے کے بعد وہ پہلی بار اپنا وٹ ڈالیں گے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کا کہا۔ گولڈن ٹاؤن میں بیکری مالک اسرار اعجاز نے بھی نواز لیگ کو ووٹ دینے کا کہا۔ پنجاب ٹاؤن کے رہائشی محمد یاسر کا کہنا تھا کہ وہ ن لیگ کے ووٹر ہیں اور اسی کو ووٹ دیں گے۔ تاہم وہیں موجود پنجاب ٹاؤن کے ایک دوسرے مکین عادل نے کہا کہ وہ تحریک انصاف کو ووٹ دیں گے۔ گولڈن ٹاؤن کے رہائشی اور سرکاری ملازم محمد طارق نے کہا کہ وہ مسلم لیگ کے ووٹر ہیں۔گولڈن ٹاؤن کے رہائشی ماجد مجلس عمل کے حمایتی نکلے۔ ڈرائیور کی نوکری کرنے والے مدثر نے بھی مجلس عمل کے امیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کرنے کا کہا۔ پنجاب ٹاؤن کے ایک اور مکین فضل نے بتایا کہ وہ قومی اسمبلی کا ووٹ تحریک انصاف اور صوبائی اسمبلی کا
ووٹ مجلس عمل کو دیں گے۔ پنجاب ٹاؤن میں کریانے کی دکان چلانے والے صفدر کا کہنا تھا کہ وہ اس سے قبل ایم کیوایم کو ووٹ دیتے آئے ہیں تاہم اس بار تحریک لبیک کو ووٹ دیں گے۔ پھل فروش محمد آفتاب اور محمد شعبان نے مجلس عمل کی حمایت کا بتایا۔ عظیم پورہ کے رہائشی پھل فروش محمد آصف نے بھی کہا کہ وہ مجلس عمل کو ووٹ دیں گے۔ گولڈن ٹاؤن کے رہائشی راشد کا کہنا تھا کہ وہ پہلی بار اپنا ووٹ ڈالیں گے اور مجلس عمل کے امیدواروں کو ووٹ دیں گے۔ گولڈن ٹاؤن میں پان کی دکان چلانے والے حبیب اللہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ انتخابات میں ایم کیو ایم کو ووٹ دیا تھا تاہم اس بار کسی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ پنجاب ٹاؤن کے ایک رہائشی محمد خالق نے کہا کہ انہوں نے پہلے کبھی ووٹ کاسٹ نہیں کیا تاہم اس بار میں مجلس عمل کو ووٹ دیں گے۔ گولڈن ٹاؤن میں پھل فروش محمد الیاس کا کہنا تھا کہ گزشتہ انتخابات میں انہوں نے جماعت اسلامی کو ووٹ دیا تھا اور اس بار بھی مذہبی اتحاد ایم ایم کو ووٹ دیں گے۔ وہیں موجود ایک اور پھل فروش اصغر نے کہا کہ وہ پہلی بار اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے اور مجلس عمل کو ووٹ دیں گے۔ موٹر مکینک ندیم نواز لیگ کے ووٹر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس بار بھی شیر پر نشان لگائیں گے۔ اسی طرح عظیم پورہ کے رہائشی شعیب نے بھی کہا کہ وہ ووٹ اپنا ووٹ نواز لیگ کو دیں گے۔ عظیم پورہ کے ہی ایک اور رہائشی حمزہ نے تحریک انصاف کو ووٹ دینے کا کہا۔ حلقے کے رہائشی محمد متین نے کہا کہ وہ مسلم لیگ کو ووٹ دیں گے۔ کاسمٹیکس کی دکان چلانے والے علی نے بھی نواز لیگ کی حمایت کی۔ اسی طرح احمد بلال اور صابر نے بھی ن لیگ کے سپورٹرز نکلے۔ گولڈن ٹاؤن کے رہائشی اور سبزی فروش محمد عمران نے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں انہوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا تاہم اس بار انہوں نے ن لیگ کو آز مانے کا فیصلہ کیا ہے۔
این اے 251 میں بھی پنجابی، پختون آبادیوں کے ووٹرز کی اکثریت متحدہ مجلس عمل کی حامی نکلی۔ حلقہ انتخاب میں تحریک انصاف دوسرے اور ایم کیو ایم پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ این اے 251 میں اورنگی ٹاؤن نمبر 4، مومن آباد، بنارس پل، اورنگی ٹاؤن کی مرکزی شاہراہ، اورنگی ساڑھے گیارہ، اورنگی ٹاؤن نمبر 10 کے علاقے شامل ہیں۔ سروے کے دوران 25 فیصد ووٹرز نے ایم ایم اے کے حق میں ووٹ دینے کا فیصلہ سنایا۔ اسی طرح تحریک انصاف کے حامیوں کی تعداد 35 اعشاریہ 7 فیصد، ایم کیو ایم کے 14 فیصد، نواز لیگ کے 10 فیصد، جبکہ تحریک لبیک اور عوامی نیشنل پارٹی کے 3 ، 3 فیصد ووٹرز موجود ہیں۔ حلقے میں موجود ایک فیصد ووٹرز کا کہنا ہے کہ وہ کسی امیدوار کو ووٹ کاسٹ نہیں کریں گے۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو میں اورنگی ٹاؤن کے مقامی اسپتال میں موجود ڈاکٹر اعجاز الحق کا کہنا تھا کہ وہ تحریک انصاف کو ووٹ دیں گے۔ رحمانیہ اسلامیہ مسجد کے قاری عبدالرشید نے بتایا کہ وہ پہلے متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دیتے آئے ہیں، لیکن جیت کے بعد ان جماعتوں کے امیدوار کبھی پلٹ کر علاقے میں نہیں آئے۔ اس لئے انہوں نے اب مجلس عمل کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے مدرسے میں وہ طالب علم جن کا شناختی کارڈ بنا ہوا ہے اور حلقے میں ان کا ووٹ ہے، وہ بھی مجلس عمل کے امیدوار کو ووٹ دیں گے۔ شارع اورنگی پر موجود موٹر سائیکل کے کاروبار سے وابستہ خادم کا کہنا تھا کہ گزشتہ انتخابات میں ایم کیو ایم کو ووٹ دیا تھا، لیکن اس بار تحریک لبیک کو ووٹ دیں گے۔ وہیں موجود مکینک محمد حماد تحریک انصاف کے حمایتی نکلے۔ اورنگی مومن آباد کے رہائشی خاور علی کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس بار تحریک انصاف کو ووٹ دینے کا ارادہ کیا ہے۔ اسی طرح اورنگی ساڑھے گیارہ کے رہائشی اورنگزیب نے بھی تحریک انصاف کو ووٹ دینے کا کہا۔ اورنگی ٹاؤن نمبر 10کے رہائشی عبدالغفار پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ پھل فروش اظہر کا کہنا تھا کہ وہ پتنگ پر نشان لگائیں گے۔ بنارس کے رہائشی محمد رمضان کا کہنا تھا کہ وہ لیگی ہے اور مسلم لیگ ن کو ہی ووٹ دیں گے۔ زاہد اللہ نے کہا کہ وہ تحریک انصاف کو ووٹ دیں گے۔ نصیر اللہ نے بتایا کہ وہ اورنگی 4 نمبر کے رہائشی ہیں اور اس بار مجلس عمل کو ووٹ دیں گے۔ سبزی فروش شعیب کا کہنا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ بنارس پل کے قریب پھل فروش اعجاز کا کہنا تھا کہ وہ نواز لیگ کو ووٹ دیں گے۔ اورنگی کوئٹہ ہوٹل پر موجود محمد یاسر کا کہنا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ ارباب حسن کا کہنا تھا کہ وہ تحریک انصاف کو ووٹ دیں گے۔ جبکہ اورنگی کے رہائشی حبیب اللہ کا کہنا تھا کہ وہ کتاب پر مہر لگائیں گے۔ نجیب کا کہنا تھا کہ وہ تحریک انصاف کو ووٹ دیں گے۔ زین احمد کا کہنا تھا کہ وہ پتنگ کو ووٹ دیں گے۔ زاہد عالم کا کہنا تھا کہ اس بار وہ عمران خان کے امیدوار کو ووٹ دیں گے۔ جمال الدین پتنگ کے حامی نکلے۔ اورنگی نمبر ساڑھے گیارہ کے رہائشی بشیر نون لیگ کے سپورٹر ہیں۔ ایاز خان کا کہنا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کا ووٹ ایم کیو ایم اور صوبائی اسمبلی کا ووٹ تحریک انصاف کو دیں گے۔ ممتاز کا کہنا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے۔ نواز علی نے اے این پی کی حمایت کی۔ عابد کا کہنا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ محمد سرور تحریک انصاف کے حامی نکلے۔ جب کہ ایک دلبرداشتہ شہری محمد ندیم کا کہنا تھا کہ کوئی امیدوار ٹھیک نہیں اور وہ اس بار کسی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اسی طرح اورنگی ٹاؤن کی مرکزی شاہراہ واقع آغا خان لیبارٹری کے ڈاکٹر طارق کا کہنا تھا کہ وہ الیکشن کے دوران گھر میں آرام کریں گے۔ ایسا کوئی بھی امیدوار نہیں جو اورنگی کے مسائل حل کرسکے۔