دارالعلوم دیوبند سے پوچھئے

0

لاٹری کا حکم
سوال: میں عرصہ دراز سے کینیڈا میں رہائش پذیر ہوں۔ کینیڈا چونکہ ایک غیر اسلامی ملک ہے اور دارالسلام نہ ہونے کی وجہ سے ان کے تمام تر قوانین خود ساختہ اور انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں، جو جہاں پر اسلامی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو کسی حد تک انسان کو تحفظ فراہم کرتے ہیں، وہیں پر کچھ قوانین ایسے بھی ہیں جو اسلام اور قرآن و سنت کے بالکل مخالف ہیں۔ جیسے کہ شادی کے بغیر اولاد کو پیدا کرلینا، مرد کا مرد سے شادی کر سکنا اور عورت کا عورت سے شادی اور پھر صرف ایک وقت میں ایک ہی شادی کی اجازت دینا ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی نہ کر سکنا وغیرہ وغیرہ۔ بظاہر یہ تمام قوانین ان کو تحفظ وہ بھی وقتی طورپر دیتے ہوئے نظر آتے ہیں پر درحقیقت میں ان کی اپنی ہی نسلوں کو نگل رہے ہیں اور ایسے میں ان کی غلیظ نظر مسلمان خاندانوں پر جاتی ہے، جہاں پر ان کو بچے نظر آتے ہیں، ایسے میں تمام تر مراعات دے کر کڑوی گولی میٹھائی میں رکھ کر مسلمانوں کو کھلانا چاہتے ہیں، مسلم امیگریشن کی مد میں اور کِھلا بھی رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے بہت سے گھرانوں جن سے ملاقات ہوئی تو پتا چلا کہ آباؤاجدا مسلمان تھے، پر اب کوئی نہیں ہے۔ کئی گھر ایسے ملے، جہاں پر مسلمان لڑکیوں اور لڑکوں نے غیرمسلم سے شادیاں کر رکھی ہیں اور ان غیر مسلم گھرانوں کی ڈھب پر چل رہے ہیں اور پیدا ہونے والی اولاد کا کوئی دین نہیں۔ میرا تعلق عبقری سے ہے اور کینیڈا میں ٹوٹی پھوٹی خدمت خلق کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور مزید کرنا چاہتا ہوں، مگر وسائل محدود ہونے کی وجہ سے بے بس ہوں۔ گئے دنوں ایک دوست سے ملاقات ہوئی تو ایک چیز سامنے آئی کہ جذبے میں کوئی شک نہیں، مگر مالی مشکلات ہیں، جو کسی طور پر حل ہوتی نظر نہیں آرہی ہیں۔ مگر ایک راستہ ضرور ہے۔ یہاں ویسے تو بہت سی لاٹری سسٹم موجود ہیں، جو OLG کے نام سے ایک ادارہ ہے، جو چلا رہا ہے۔ یہ ادارہ اکھٹی شدہ رقم کا ایک بڑا حصہ اپنے ایڈمنسٹریشن چارجز میں سے خیرات کے طور مقامی اسپتالوں، ویلفیئر اداروں اور بہت سے دیگر گورنمنٹ کے سماجی کام کرنے والے اداروں پر خرچ کرتا ہے۔ اس پیسے سے جو ہر ہفتے 6 کینیڈین ڈالر کے عوض لوگ خریدتے ہیں اور ہر ہفتے قرعہ اندازی کے ذریعے جیتنے والے کو دے دیا جاتا ہے، اگر نکل آئے تو ٹھیک ورنہ وہ پیسہ ضائع ہو گیا۔ بس میرا سوال یہی ہے کہ کیا کینیڈا جیسا ملک جو دارالسلام نہیں اور اگر ان کی رضامندی ہو کہ جیتنے پر پیسہ دینے میں کوئی اعتراض نہیں تو کیا یہ لاٹری ’’خیرات کی نیت‘‘ سے خریدنا جائز ہے اور اگر انعام نکل آئے تو یہ تمام تر پیسہ ’’مخلوقِ خدا کی خدمت پر لگانے کا عزم‘‘ہو، جس سے کینیڈا میں ایسے ادارے قائم ہوں، جو ہماری نسلوں کو تحفظ فراہم کر سکیں، جیسے مزید مساجد کا قیام، اسلامی اسکولوں کا قیام جو بہت ضروری ہے تیسری جماعت سے ہی مقامی اسکولوں میں جنسی تعلیم کا قانون پاس کردیا ہے، جس سے مسلمان بہت پریشان ہے۔ براہِ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں اصلاح فرما دیں تاکہ صراطِ مستقیم کا حصول ممکن ہو۔
جواب: آپ کا خدمت خلق کا جذبہ مبارک ہے، مگر اس کے لیے لاٹری کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ لاٹری سود اور قمار پر مشتمل ہے، جن کی ممانعت نص قطعی سے ثابت ہے۔ مفتی بہ قول کے مطابق دارالحرب میں بھی اس کی گنجائش نہیں ہے۔ (فتویٰ:482-48T/L=4/1439، دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند)
فاسٹ ٹریک سسٹم کے ذریعہ ڈپلومہ کرنا
سوال: حضرت، میں نے 2007ء میں میکینکل انجینئرنگ میں ڈپلومہ کیا ہے اور دس سال سے انجینئرنگ کی لائن میں نوکری کرتا ہوں۔ مجھے ڈیڈٹینس ایجوکیشن سے ڈگری حاصل کرنی ہے، جو ملازمت کے ساتھ ساتھ کرسکتا ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ فاسٹ ٹریک سسٹم سے ڈگری سرٹیفکیٹ حاصل کرسکتا ہوں، کیا یہ جائز ہے؟ جس کی تفصیل یہ ہے کہ تین سال کی ڈگری کی مارک شیٹ اور سرٹیفکیٹ تین مہینہ میں ملتی ہے۔ تین سال کی پوری فیس اور صرف ایک امتحان ہوتا ہے۔ یہ آفر ڈپلومہ اور اس کے تجربہ کی بنیاد پر یوجی سی (UGC) کی منظور شدہ یونیورسٹی کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس سے میرا فائدہ یہ ہے کہ مجھے تین ماہ میں ڈگری سرٹیفکیٹ ملے گا، جو اعلیٰ پوزیشن کے لیے لگتا ہے اور اچھی بڑی کمپنی ایم این سی (MNC) میں درخواست دینے کے لیے اس کی ضرورت (لازمی) ہے۔ برائے مہربانی تفصیلی جواب بتائیں۔ واضح رہے کہ اس سے میری ملازمت کے کام میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
جواب: جو ڈگری تین سال میں ملتی ہے، اسے فاسٹ ٹریک سسٹم کے ذریعے تین ماہ میں حاصل کرنا اگر قانون کی نظر میں جرم نہیں اور جس ادارے سے حاصل کرنا ہے، اس کے ضابطے کی خلاف ورزی بھی نہیں پائی جاتی اور اس کے حصول کے لیے رشوت اور کذب بیانی کا ارتکاب بھی نہیں پایا جاتا ہے، تب تو اس طریقے پر ڈگری حاصل کر سکتے ہیں اوراس سے ملازمت اختیار کرسکتے ہیں، لیکن اگر اس طرح ڈگری حاصل کرنا قانوناً جرم ہے یا اس کے حصول کے لیے ممنوع شرعی کا ارتکاب لازم آتا ہے تو مذکورہ سسٹم کے ذریعے ڈگری حاصل کرنا جائز نہ ہوگا، البتہ اس بنیاد پر اگر جائز کام کی ملازمت مل جائے اور آپ متعلق کام کو امانت داری کے ساتھ انجام دیں تو آمدنی پر حرام وناجائز کا حکم نہیں ہوگا۔
(فتویٰ: 397-359/M=4/1439، دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More