حضرت پیرمہر علی شاہ گولڑوی

0

سید ارتضی علی کرمانی
اسزمانے میں ایک تحریک ’’شدھی‘‘ نامی شروع ہوئی۔ جس کا مقصد مسلمانوں کو جبری طور پر ہندو بنانا تھا۔ دیہاتوں کے سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے ان کے ہاتھ ایک ایسی تصویر بھی لگ گئی جو تحریک خلافت کے دوران خلافت کمپنی نے سوامی شروھانند کی جامع مسجد دہلی کے منبر پر بٹھا کر اتاری تھی۔ یہ شخص مسلمانوں کا بدترین دشمن تھا اور ہندوستان کے طول و عرض میں اسلام دشمنی کے لیے مشہور تھا۔
شدھی تحریک کے سرکردہ افراد دیہاتوں میں اسی تصویر کو بطور ثبوت پیش کرتے کہ دیکھو ہندو مسلم سب متحد ہو چکے ہیں۔ ان تصاویر سے بہت سے سادہ لوح مسلمان دھوکہ میں آگئے۔ اب مسلم زعما کی آنکھیں کھلیں اور ان کو معلوم ہوا کہ مسٹر گاندھی پرلے درجے کا مکار شخص ہے۔ دھیرے دھیرے یہ زعما کانگریس سے الگ ہوتے گئے۔ اور عرصہ دراز تک کف افسوس ملتے رہے۔ کیونکہ اب تک ہزاروں مسلمانوں کو بے گھر ہونا پڑا تھا اور ہزاروں کو جبری طور پر ہندو بننا پڑا تھا۔
ان کو اب احساس ہوا کہ حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحبؒ کا موقف بالکل درست تھا۔ انہی میں ایک مشہور رہنما تھے۔ جناب مولانا ظفر علی خان، مولانا صاحب ایک مرتبہ حضرت صاحبؒ کو قائل کرنے کے لیے گولڑہ بھی گئے اور کافی دیر آپ کو تحریک خلافت اور گاندھی کی حمایت کے لیے تیار کرتے رہے۔ مگر حضرت صاحبؒ نے جب شرع شریف کے متعلق اپنا مسلک واضح کیا تو خاموش ہو گئے اور واپس ہو لیے۔ بعد میں جب ان کی آنکھیں کھلیں تو کانگریس سے الگ ہو گئے اور مسٹر گاندھی کو مخاطب کر کے درج ذیل اشعار کہے جو اس زمانے میں مسلمانوں کی اکثریت کی زبان بن گئے۔
اے دشمن اسلام
اے سامری وقت گاندھی ہے ترا نام
کہتے ہیں نصاریٰ کا تجھے بندۂ بے دام
ہندو کو مسلماں سے لڑانا ہے ترا کام
ہم کو نظر آتا ہے جو ہو گا تیرا انجام
اے دشمن اسلام
تقدیر وطن کی اسی دن سے ہوئی کھوٹی
جب شیخ کے تہمد سے ملی تیری لنگوٹی
اور چادر تہذیب عرب ہو گئی چھوٹی
ہم قائل الہام ہیں تو مائل اوہام اے دشمن اسلام
درج بالا اشعار پڑھ کر آپ کو خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ حضرت پیر سید مہر علیؒ شاہ صاحب کا موقف کس قدر درست تھا۔ جب ترکوں نے خلافت کا قضیہ خود ہی نمٹا دیا۔ جب ہندو مسلم اشتراک و اتحاد کی کشتی مدن موہن مالویہ، موتی لال نہرو اور شروھانند نے گنگا جمنا کے سنگم میں ڈبو دی، جب ہجرت کرنے والے مسلمانوں کا انجام نظر آیا اور اس میں ہندوئوں کی سازش کے نمایاں ہونے کے ثبوت ملے، اور آرہ کے مذہبی فسادات میں فرنگی محلی کے خلافتی مشائخ جو پہلے ہندوئوں کے ساتھ تھے۔ اب آنکھیں کھلیں تو ہندوئوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دینے کو تیار ہو گئے۔ مگر حضرت صاحبؒ کا موقف اور استدلال مبنی بر شرع شریف تھا۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More