امانت کی حفاظت ہو تو ایسی!

0

حضرت ربیعہ وہ بزرگ اور جامعِ علم و عمل تھے کہ حضرت امام مالکؒ اور امام حسن بصریؒ، جو دنیائے اسلام کے عظیم الشان محسنوں میں سے ہیں، ان کے شاگرد ہیں۔
یہ اتنے بڑے عالم کیسے بنے، ایک سبق آموز واقعہ ہے کہ آپؒ کے والد فوجی تھے، جب آپؒ اپنی ماں کے پیٹ میں تھے، جب ہی آپ کے والد باہر چلے گئے تھے اور گھر میں برابر خرچ دیتے رہتے تھے، پورے ستائیس سال کے بعد آپ کے والد گھر واپس آئے تو دیکھا کہ محلے کی مسجد میں ایک عظیم الشان مجمع کے سامنے ایک نوجوان درس دے رہا ہے، ان کے دل میں تمنا ہوئی کہ کاش! یہ میرا لڑکا ہوتا۔
ان کے والد مسجد سے گھر آئے، بیوی سے خیریت دریافت کی، باتیں ہو رہی تھیں کہ صاحبزادے گھر میں آگئے، تو اہلیہ نے کہا کہ وہ تمہاری امانت آگئی، آپ کی بھیجی ہوئی رقم میں نے اس کی تعلیم پر لگا دی تھی۔
والد یہ سن کر اس قدر خوش ہوئے، جس کا بیان تحریر سے باہر ہے۔مسجد میں درس دینے والا یہی نوجوان ربیعہ تھا۔ (باکمال عورتیں: صفحہ نمبر129)
صحت کی قیمت!
گجرات کا حکمران سلطان قطب الدین بن شاہ محمد المتوفی 855ھ بستر مرگ پر بڑی تکلیف میں مبتلا تھا، اس حالت میں اس کی نظر اپنے محل کے جھروکے سے ایک ساحل پر پڑی، جس پر ایک لکڑ ہارا سر پر لکڑیاں اٹھا جا رہا تھا اور بوجھ کے زیادہ ہونے کی وجہ سے مشقت میں مبتلا تھا۔ اس نے بڑی مشکل سے ندی کو عبور کیا، کنارے پر آخر بوجھ کو زمین پر ڈالا اور کمر سے سوکھی روٹی نکال کر پیاس سے کھانے لگا، اس کو بہت بھوک لگی ہوئی تھی، اس لیے بڑی رغبت سے کھاتا رہا۔ پھر ندی کے کنارے آیا اور خوب سیر ہو کر پانی پیا اور ایک دیوار کے سایہ میں سو گیا، سلطان یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا، اس نے کہا اے کاش! میری بادشاہت اس لکڑہارے کو دے دی جاتی اور اس کی تندرستی مجھ کو عطا کردی جاتی اور میں لکڑہارے ہی کا کام کرتا رہتا۔( مرآۃ سکندری 68 بحوالہ بزم رفتہ کی سچی کہانیاں 144)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More