ضیا ءالرحمن چترالی
آج کل دنیا بھر کے لوگ خصوصاً نوجوان فلمی دنیا کو انسانیت کی معراج سمجھتے ہیں۔ ہالی ووڈ اور بالی ووڈ سے وابستہ شخصیات کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے لوگوں کا سمندر امڈ آتا ہے۔ اداکاروں اور اداکاروں سے آٹوگراف لینے کیلئے نوجوانوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ ان کے ہیئر اسٹائل سمیت ایک ایک ادا کی پوری دنیا میں نقالی کی جاتی ہے۔ دولت کی دیوی ان پر ایسی مہربان ہے کہ ہر وقت اس فلمی صنعت کے وابستگان پر ہن برس رہی ہوتی ہے۔ مگر شہرت، عزت اور دولت کی چوٹی پر بیٹھے ان لوگوں کے دل کی دنیا تاریک اور ان کے چہروں پر سجی مسکراہٹ مصنوعی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ چین و سکون سے عاری ہیں اور دلی راحت کیلئے منشیات کا سہارا لینے پر مجبور ہیں اوران افراد میں خود کشی کرنے کا رجحان بھی کافی زیادہ ہے۔
اٹلی سے تعلق رکھنے والی فلمی اداکارہ مارشیلا انجلو کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ مگر اس خاتون پر مہربان رب نے کرم کیا اور اسے نہ صرف گلیمر کے جوہڑ سے نجات ملی، بلکہ تثلیث کے ماورائے عقل عقیدے کو بھی اس نے خیر باد کہہ کر توحید کے سایہ عاطفت بھی پناہ حاصل کی۔ چند برس پہلے ایمان کی حلاوت پانے والی مارشیلا کے قبول اسلام کی خبر عالمی ذرائع ابلاغ میں عرصے تک زیر بحث رہی۔ کئی مقبول فلموں میں کام کرنے والی اس صف اول کی اداکارہ نے اپنے متعدد انٹرویوز میں اپنے قبول اسلام کی کہانی بیان کی ہے۔ جسے اسی کی زبانی پڑھتے ہیں:
’’میں ایک متعصب عیسائی خاندان میں پیدا ہوئی، میرا تعلق اٹلی سے ہے، میرا بچپن سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں گزرا، بعد میں ہم لوگ عیسائیت کے مرکز روم منتقل ہوگئے، یہاں میں نے آرٹس اکیڈمی میں داخلہ لے لیا، میں اپنی خوب صورتی کی وجہ سے ہمیشہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی تھی، پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہی میں نے ماڈلنگ بھی کرنی شروع کر دی تھی۔
روم کے سبھی فیشن شوز میں مجھے بلایا جاتا تھا، ان شوز میں شرکت سے میری شہرت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا رہا اور مجھے فلموں میں بھی کام ملنے لگا، میرے لیے شہرت اور دولت کے دروازے کھل گئے، آرٹس اکیڈمی سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میری خواہش اطالوی سینما پر چھانے کی تھی، اٹلی کے مشہور پروڈیوسر بیٹروجرائس نے مجھے اپنی فلم کے لیے ہیروئن منتخب کر لیا، اس فلم کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی اور پھر میں کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کرتی گئی۔
دوسری عالمی جنگ پر بننے والی فلم کی شوٹنگ کے لیے مجھے اپنی یونٹ کے ساتھ مصر کے ایک معروف شہر مرسی مطروح جانا ہوا، وہ سفر میرے لیے روشنی کا سفر ثابت ہوا اور میری زندگی کا رخ ہی پلٹ گیا، اس شہر سے گزرتے ہوئے ہمیں ایک مقام پر تھوڑی دیر کے لیے رکنا پڑا۔ میں نے دیکھا کہ وہاں پر موجود ایک عمارت سے متصل حصے میں کچھ لوگ ہاتھ منہ دھونے کے بعد جوتے اتار کر عمارت میں داخل ہو رہے ہیں اور وہ قطاروں میں کھڑے ہو کر اٹھنے بیٹھنے کا سا عمل کر رہے ہیں۔
اس منظر کو دیکھ کر مجھے تجسس ہوا اور میں وہ منظر قریب سے دیکھنے کیلئے گاڑی سے اتر کر اس عمارت کے قریب چلی گئی، وہاں پہنچی تو دیکھا کہ اب وہ سب لوگ بیٹھے پر سکون انداز میں کچھ پڑھ رہے ہیں۔
ان میں سے کسی نے بھی میری طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا، اس مشاہدے کے پر سکون لمحات مجھے اپنی پوری زندگی میں کبھی میسر نہیں آئے تھے۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭