امام غزالیؒ نے احیاء العلوم میں عبدالواحد بن زید بصریؒ سے نقل کیا ہے کہ میں حج کو جارہا تھا، ایک شخص میرا رفیق سفر ہوگیا۔ وہ ہر وقت چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے حضور اقدسؐ پر درود بھیجا کرتا تھا۔ میں نے اس سے کثرت درود کا سبب پوچھا۔ اس نے کہا کہ جب میں سب سے پہلے حج کیلئے حاضر ہوا تو میرے باپ بھی ساتھ تھے۔ جب ہم لوٹنے لگے تو ہم ایک منزل پر سو گئے۔ میں نے خواب میں دیکھا مجھ سے کوئی شخص کہہ رہا ہے کہ اٹھ تیرا باپ مرگیا اور اس کا منہ کالا ہوگیا۔ میں نے خواب میں گھبرایا ہوا اٹھا تو اپنے باپ کے منہ پر سے کپڑا اٹھا کر دیکھا تو واقعی میرے باپ کا انتقال ہوچکا تھا اور اس کا منہ کالا ہورہا تھا۔
مجھ پر اس واقعہ سے اتنا غم سوار ہوا کہ میں اس کی وجہ سے بہت ہی مرعوب ہورہا تھا۔ اتنے میں میری آنکھ لگ گئی، میں نے دوبارہ خواب میں دیکھا کہ میرے باپ کے سر پر چار حبشی کالے چہرے والے جن کے ہاتھ میں لوہے کے بڑے ڈنڈے تھے، مسلط ہیں۔ اتنے میں ایک بزرگ نہایت حسین چہرہ، دو سبز کپڑے پہنے ہوئے تشریف لائے اور انہوں نے ان حبشیوں کو ہٹادیا اور اپنے دست مبارک کو میرے باپ کے منہ پر پھیرا اور مجھ سے ارشاد فرمایا کہ اٹھ حق تعالیٰ نے تیرے باپ کے چہرے کو سفید کردیا۔ میں نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کون ہیں؟ فرمایا: میرا نام محمدؐ ہے۔ اس کے بعد سے میں نے حضور اقدسؐ پر درود کبھی نہیں چھوڑا۔
نزہتہ المجالس میں ایک اور قصہ اسی نوع کا ابو حامد قزوینیؒ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص اور اس کا بیٹا دونوں سفر کررہے تھے۔ راستہ میں باپ کا انتقال ہوگیا اور اس کا سر (منہ وغیرہ) سور جیسا ہوگیا۔ وہ بیٹا بہت رویا اور حق تعالیٰ جل شانہ، کی بارگاہ میں دعا اور عاجزی کی۔ اتنے میں اس کی آنکھ لگ گئی تو خواب میں دیکھا کوئی شخص کہہ رہا ہے کہ تیرا باپ سود کھایا کرتا تھا، اس لئے یہ صورت بدل گئی، لیکن حضور اقدسؐ نے اس کے بارے میں سفارش کی ہے، اس لئے کہ جب یہ آپؐ کا ذکر مبارک سنتا تو درود بھیجا کرتا تھا۔ آپ کی سفارش سے اس کو اس کی اپنی اصلی صورت پر لوٹا دیا گیا۔
روض الفائق میں اسی نوع کا ایک اور قصہ نقل کیا ہے۔ وہ حضرت سفیان ثوریؒ سے نقل کرتے ہیں کہ میں طواف کررہا تھا، میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ہر قدم پر درود ہی پڑھتا ہے اور کوئی چیز تسبیح تہلیل وغیرہ نہیں پڑھتا۔ میں نے اس سے پوچھا اس کی کیا وجہ ہے؟ تو اس نے پوچھا تو کون ہے؟ میں نے کہا کہ میں سفیان ثوریؒ ہوں۔ اس نے کہا کہ اگر تو اپنے زمانہ کا یکتا نہ ہوتا تو میں نہ بتاتا اور اپنا راز نہ کھولتا۔ پھر اس نے کہا کہ میں اور میرے والد حج کو جارہے تھے، ایک جگہ پہنچ کر میرا باپ بیمار ہوگیا۔ میں علاج کا اہتمام کرتا رہا کہ ایک دم ان کا انتقال ہوگیا اور منہ کالا ہوگیا۔ میں دیکھ کر بہت ہی رنجیدہ ہوا اور کپڑے سے ان کا منہ ڈھک دیا۔
اتنے میں میری آنکھ لگ گئی میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک صاحب جن سے زیادہ حسین میں نے کسی کو نہیں دیکھا اور اس سے زیادہ صاف ستھرا لباس کسی کا نہیں دیکھا اور ان سے زیادہ بہترین خوشبو میں نے کہیں نہیں دیکھی، تیزی سے قدم بڑھائے چلے آرہے ہیں۔ انہوں نے میرے باپ کے منہ پر سے کپڑا ہٹایا اور اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو اس کا چہرہ سفید ہوگیا۔ وہ واپس جانے لگے تو میں نے جلدی سے ان کا کپڑا پکڑ لیا اور میں نے کہا: خدا تعالیٰ آپ پر رحم کرے آپ کون ہیں؟ کہ آپ کی وجہ سے رب تعالیٰ نے میرے باپ پر مسافرت میں احسان فرمایا؟
وہ کہنے لگے کہ تو مجھے نہیں پہچانتا، میں محمدؐ، صاحبِ قرآن ہوں (علیہ الصلوٰۃ و السلام) یہ تیرا باپ بڑا گناہگار تھا، لیکن مجھ پر کثرت سے درود بھیجتا تھا۔ جب اس پر یہ مصیبت نازل ہوئی تو اس کی فریاد کو پہنچا اور میں ہر اس شخص کی فریاد کو پہنچتا ہوں جو مجھ پر کثرت سے درود بھیجے۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭