عباس ثاقب
تھکن سے چور حالت میں بستر پر دراز ہوکر میں نے نیند کو خوش آمدید کہنا چاہا، لیکن تنہائی اور فراغت میسر ہوتے ہی وہ خلش دل پر زیادہ شدت سے خراشیں ڈالنے لگی کہ میں اپنی دانست میں اس خطرناک مشن میں بھرپور کامیابی حاصل کرنے کے باوجود درحقیقت سراسر ناکام ہی رہاہوں۔ میں نے اس غریب سچن بھنڈاری کی زندگی بھی عذاب بنا ڈالی لیکن اس تمام تگ ودو کا حاصل کیا ہوا؟ کچھ بھی نہیں!
میں نے اضطراب کے عالم میں کروٹ بدلی اور ایک بار پھر سونے کی کوشش کی۔ مجھے لگا کہ یہ شب جاگتے ہی گزرے گی۔ دل پر چھائی پژمردگی کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی تھی۔ کتنے ہی دنوں بعد شدت سے گھر والوں کی یاد بھی دل میں جاگ اٹھی۔ وہ کتنی شدت سے میری واپسی کے منتظر ہوں گے۔ میرے دوستوں کی محفل میں بھی میری واپسی کے دن گنے جارہے ہوں گے۔
بے اختیار دل چاہا کہ سب کچھ چھوڑچھاڑ کر وطن جا پہنچوں۔ ایسے مقصد کیلئے جان لڑانے کا کیا فائدہ جس کی کامیابی چند مقتدر افراد کی پسند ناپسند کی زد میں آکر خاک میں مل سکتی ہو۔ ذاتی رنج سے قطع نظر میں پوری دیانت سے بتاتا ہوں کہ اپنی قیادت کے درمیان ایسی باتیں جان کر مجھے دکھ سے زیادہ حیرت ہوئی تھی کہ اتنے اعلیٰ عہدوں پر قابض لوگ بھی خطرے کا ادراک نہیں رکھتے۔ انھیں ذرا بھی اندازہ نہیں کہ ہمیں کتنے خطرناک اور کینہ پرور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارا وجود صفحہ ہستی سے مٹانے کے واحد نصب العین کے ساتھ دن رات اپنی جنگی قوت بڑھا رہا ہے اور ہمارے بڑے اس سنگین حقیقت کا ادراک کیے بغیر آپس میں الجھنے میں مگن ہیں۔
پھر میں نے بالآخر اپنے آپ کو تسلی دینے کی کوشش کی۔ میں اور میرے جیسے اور بہت سے لوگ بڑے منصب داروں کے لیے نہیں بلکہ اپنے وطن کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے جان کی بازی لگاتے ہیں۔ میں نے جو کچھ کیا، اپنے وطن کی خاطر کیا۔ اگر وہ بارآور نہ بھی ثابت ہو تو مجھے کیا فرق پڑتا ، اور کون جانے ،اب نہ سہی دوچار سال بعد آئی این ایس وکرانت کی تباہی کا کوئی اور مناسب موقع ملنے پر میری اکٹھی کی ہوئی معلومات میرے وطن کے تحفظ میں کام آجائیں۔
صبح سویرے معمول کے مطابق اسلم مجھ سے فلم رول لینے کے لیے آگیا۔ اس گھاگ شخص نے چند سیکنڈمیرے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لینے کے بعد ہی میری دلی کیفیت بھانپ لی اور چند ہی سوالوں میں میری حالت کا تجزیہ کرڈالا ’’کیا ہوا چھوٹے بھیا؟ آج کچھ ڈاؤن نظر آرہے ہو؟ طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ گھر والوں کی یاد ستا رہی ہے کیا؟‘‘
میں نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ’’اسلم بھائی آپ نے درست اندازہ لگایا۔ دل کچھ اچاٹ سا ہوگیا ہے۔ گھر والوں کی یاد بھی آرہی ہے۔ ویسے بھی یہ مشن تو اب تقریباً مکمل ہوگیا ہے۔ بس کموڈور نیل کنٹھ کے دفتر میں موجود کچھ دستاویزات کی فوٹوگرافی درکار ہے۔‘‘
اسلم نے میری بات سن کر اثبات میں گردن ہلائی۔ پھر کچھ سوچ کر کہا ’’پرندے کا نام رکھنے والے اس کموڈور کے نام سے ایک اور خبیث، بدترین پاکستان دشمن ریٹائرڈ ہندوستانی فوجی افسر بریگیڈیئر مٹھو سنگھ کا تصور میرے ذہن میں ابھرتا ہے اور میرا خون کھولنے لگتا ہے۔‘‘
اسلم کی بات سن کر میں چونکا ’’مٹھوسنگھ؟ یہ کون ہے اور اس کا خیال آنے پر آپ کو غصہ کیوں آجاتا ہے؟‘‘
مجھے لگا کہ وہ چندلمحوں تک خاموش رہ کر اپنے مشتعل جذبات قابو میں کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ بالآخر اس نے کہا ’’مٹھو سنگھ فوج سے رضا کارانہ ریٹائرمنٹ لے کر سیاست میں آگیا تھا اور اب وہ کانگریس کے ٹکٹ پر ریاستی اسمبلی کا رکن اور وزارت کا امیدوار ہے۔‘‘
اس کے خاموش ہوجانے پر میں نے پوچھا ’’اس سے ناراضی کی وجہ تو بتائیں بھائی۔‘‘
اسلم نے کچھ دیر خیالات یکجا کرنے کے بعد گہری سانس لے کر کہا ’’ہندوستان کی تقسیم کے وقت مٹھو سنگھ مہاراجا پٹیالہ کی فوج میں محض لیفٹین (لیفٹیننٹ) تھا جسے بعد میں پٹیالہ ریاست کے ہندوستان میں ضم ہوجانے کے بعد پہلے مہاراجا کا رشتہ دار ہونے کی وجہ سے بہت جلد پہلے کیپٹن، پھر میجر اور کرنل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ گربچن کا کہنا ہے کہ اس خبیث انسان نے اپنی سرکاری حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان کے مختلف حصوں، خصوصاً مشرقی پنجاب کے مختلف علاقوں سے ہجرت کرنے والے نہتے مسلمانوں کے قافلوں پر حملے کرکے قتل عام اور لوٹ مارکرنے کے لیے درندوں کے جتھے ترتیب دیے تھے۔‘‘
میں نے اس کے آگے بولنے کا انتظار کیا ’’مجھے اس کے بارے میں پنجاب کے قصبے ترن تارن صاحب سے تعلق رکھنے والے میرے ایک بوڑھے آٹو ڈرائیور دوست گربچن ساندھو نے بتایا تھا جو اب غالباً عمر کے تقاضوں کے تحت اپنے کرتوتوں پر شرمندگی ظاہر کرتا ہے۔ وہ مٹھو سنگھ کی انسانیت سوز سرگرمیوں کا چشم دید گواہ ہی نہیں، شریک بھی رہا ہے۔ گربچن کے مطابق مٹھو سنگھ شیطانی جتھوں کو سرکاری ہتھیار بھی مہیا کرتا تھا اور ان کا ہدف بننے والی مسلمان آبادی والی بستیوں اور بعد میں ہجرت کرنے والے قافلوں کی نشان دہی بھی اس نے اپنے ذمے لے رکھی تھی۔ ‘‘
اسلم کچھ لمحوں تک غالباً خیالات یک جاکرتا رہا ’’گربچن کے مطابق اسے بعد میں پتا چلا کہ مٹھو سنگھ نے یہ سب شیطانی کارروائیاں صرف مسلمانوں سے نفرت اور دشمنی کے جذبے یا دھرم کی محبت سے مجبور ہوکر نہیں کی تھیں، بلکہ ان کارروائیوں کی آڑ میں اس نے لوٹ مارکا بھاری مال بھی ہتھیایا۔ تاہم اس نے سب سے زیادہ دولت اغوا کی گئی مسلمان عورتوں اور لڑکیوں کی فروخت سے اکٹھی کی ہے، بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ وہ اسی ناپاک مال کے بل پر ایم پی (ممبر اسمبلی) بنا بیٹھا ہے۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭