حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی

0

قسط نمبر18
سید ارتضی علی کرمانی
انہی ایام میں ایک ڈاکو جہانداد کو پھانسی دی گئی۔ اس کا نماز جنازہ جامع مسجد راولپنڈی میں پڑھانے کے لیے لایا گیا۔ حضرت صاحبؒ بھی اتفاق سے اس جمعۃ المبارک کو اسی مسجد میں موجود تھے۔ نماز جمعہ کے بعد جنازہ پڑھنے کے لیے آپ بھی اس میں شریک ہوئے۔ اب یہ کس طرح ممکن تھا کہ اپنے وقت کا ولی کامل مسجد میں موجود ہو اور نماز جمعہ اور نماز جنازہ اور کوئی پڑھائے۔ مخالفین اور حاسدین نے اس واقعہ کو اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ لگنے لگا کہ جیسا خصوصی طور پر حضرت صاحبؒ اس ڈاکو کا نماز جنازہ پڑھانے کے لیے ہی تشریف لے گئے تھے اور دیگر علماء نے تو اس ڈاکو کا نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا، مگر آپ نے پڑھایا۔
انگریز ڈپٹی کمشنر تو پہلے ہی خار کھائے بیٹھا تھا۔ اس نے فوری طور پر ایک روبکار تیار کروائی اور حضرت پیر صاحبؒ سے جواب طلب کیا۔ حضرت صاحب نے اس روبکار پر ہی اپنا جواب تحریر کیا۔ بعض چیدہ چیدہ فقرات ملا حظہ فرمائیے۔
٭ اگر آپ بحیثیت منصب ڈپٹی کمشنری کے چوری یا ڈاکہ یا قتل بے گناہ کوبرا مانتے ہیں تو ہم بلحاظ کتاب آسمانی و عقل اور مذکورہ کو حرام و ناجائز سمجھتے ہیں۔
٭ جرائم مذکورہ کا مرتکب یا مجرموں کا معاون وہی شخص ہو سکتا ہے جو اعلیٰ درجہ کا جاہل یا لالچی ہو۔
٭ پیر کے معنی یہ نہیں کہ ہر ایک کو آسمانی کتاب کے مطابق ہدایت کرے اور مرید کہلانے کا مستحق وہی شخص ہے، جو بحسب ہدایت پیر کے عمل کرے۔ بفضلہ تعالیٰ آباؤ اجداد سے آج تک ہمارا طریقہ یہی چلا آرہا ہے کہ مریدوں کو اچھے کاموں کی ہدایت کرتے ہیں اور برے کاموں سے روکتے ہیں۔ جس نے تعمیل نہ کی، وہ ہمارا مرید نہیں ہو سکتا۔ ہاں ایسے لوگ نام کے مرید ہوتے ہیں۔
٭ ہم کو حق تعالیٰ بغیر مجرموں کے چونکہ اچھی طرح رزق پہنچاتا ہے، اس لیے ہمیں مجرموں کی اعانت اور ان سے لالچ رکھنے کی ضرورت کیا ہے۔ کیا ہم بھی پر لے درجہ کے جاہل ہیں یا لالچی؟
٭ آپ کو اپنا منصب اور اپنے اعلیٰ حاکم کمشنر صاحب بہادر یا لاٹ صاحب بہادر کا خوف امور بالا کی اجازت نہیں دیتا، تو ہم کو اپنا منصب یا اپنے حاکم حقیقی جل شانہٗ کا خوف کیسے اجازت دے سکتا ہے۔ اگر ہم ایسے ہی ہیں تو ہزار ہا باخبر، باعلم اور بادیانت لوگ ہم سے علیحدہ کیوں نہیں ہوتیِ؟ اگر گنہگار ہیں تو ذاتی گناہ کے مرتکب ہوں گے نہ کہ مخلوق خدا کا گلا کاٹنے والوں کے خیر خواہ؟
٭ اس میں شک نہیں کہ مجرموں کے بال بچے یا بیوگان بحالت بے کسی روٹی کھانے کو بھی آجاتے ہیں، جب سرکار عالی ان پر رحم فرما کر ان کو اپنے ملک سے خارج نہیں کرتے تو سرکار کی رعایا سے اگر کسی آسودہ حال کے دروازے سے روٹی مانگ لیں تو کیا قباحت ہے؟ یہ بھی یعنی ایسی حالت میں بھی آنے کا سالہا سال گزرنے پر اتفاق ہوتا ہے۔
٭ عیسائی لوگ اگر اپنے اعتقاد کے مطابق اپنے مجرموں کے واسطے اپنے پیر پادری سے دعا کرائیں اور وہ دعا کریں اور دعا بھی یہ کہ خدائے تعالیٰ ان کو راہ راست پر لائے تو کیا پادری صاحبان کو بوجہ اس دعا کرنے کے مجرموں کی تعزیر میں شریک کیا جائے گا؟ عقل و انصاف اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔
٭ رہا یہ سوال کہ مختلف زبانوں سے جناب کی خدمت میں شکایتیں کیوں ہوئیں۔ جواباً معروض ہے کہ انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ واقعی مرید کون ہوتے ہیں اور نام کے کون۔
دوسرے یہ کہ ان کے اطفال یا پس ماندگان کے آنے جانے کی نسبت سوچتے ہیں کہ یہ اعانت نہیں تو کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ وجوہات جن کا منشا بغیر کم فہمی یا حسد کے عاقل کے نزدیک اور کچھ نہیں۔
٭ ہمارا بھاری عیب یہ ہے کہ تعلق اور خوشامد مزاج میں نہیں، جس کی وجہ سے خوشامد طلب ناخوش ہو سکتے ہیں اور ناخوش ہو کر خلاف واقعات گوش گزار کرتے رہتے ہیں۔
٭ جمعۃ المبارک کے روز بغرض نماز جامع مسجد میں ہمارا حاضر ہونا ہوا۔ بعداز فراغت نماز جمعہ حسب عادت سب لوگ جنازہ پڑھنے لگے، ہم بھی شامل ہوئے۔ کیا اس جنازہ پڑھنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ مردہ ہم سب کے نزدیک نیک چال چلن تھا اور ہم اس کی بداعمالیوں پر راضی ہیں؟ البتہ یہ دیکھنا منظور ہے کہ ہمارا مذہب اسلام ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں۔ دوسری صورت میں (اجازت نہ دینے کی) بیشک نماز جنازہ پڑھنے والے خلاف مذہب کہلانے کے مستحق ہو سکتے ہیں، نہ الزام کے کہ یہ لوگ اس میت کے اعمال سے خوش تھے اور اس کے معاون۔ آج تک ایسے لوگوں کو جنازہ پڑھنے والوں پر یہ الزام کبھی نہیں لگایا گیا اور نہ لگایا جاسکتا ہے۔‘‘ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More