مولانا محمد یوسفؒ راجووال کے دو علمی خواب:
مولانا محمد یوسفؒ بہت مشہور عالم دین تھے۔ دارالحدیث کمالیہ کے مہتمم تھے۔ پچاس سال سے زیادہ عرصہ سے درس و تدریس کا کام کرتے رہے۔ تین دفعہ صحیح بخاری پڑھائی۔ بڑے علمی اور تحقیقی عالم دین تھے۔ انہیں خواب بھی تحقیقی قسم کے آتے تھے۔ ان کے صاحبزادہ حافظ عبداللہ سلیم جوانی میں فوت ہوگئے۔
پہلا خواب:
ایک دفعہ حافظ عبد اللہؒ خواب میں نہایت خوبصورت شکل اور لباس میں مولانا محمد یوسف کو ملے۔ حافظ صاحب کے ساتھ چھ آدمی اور بھی تھے، جن میں حافظ ثناء اللہ صاحب مدنی بھی شامل تھے۔ مولانا یوسف نے یہ خواب جمعرات کو دیکھا تھا۔ جمعے کا خطبہ حضرت محدث روپڑی صاحب کو دینا تھا۔ فرمایا: محمد یوسف! ہم چھ آدمی ہیں، ہمارے کھانے کا انتظام کرو۔ مولانا نے یہ حکم بخوشی قبول کیا اور ساتھ ہی یہ مسئلہ دریافت کیا کہ حدیث میں آتا ہے کہ جو فرشتے قبل از خطبہ دفترلے کر مسجد میں حاضر ہوتے اور درجہ بدرجہ آنے والوں کی حاضری درج کرتے ہیں۔ جب امام خطبہ کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو فرشتے اپنے دفتر لپیٹ کر خطبہ سنتے ہیں۔
امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں یہ تبویب قائم کی ہے: ’’باب الاستماع الی الخطبۃ‘‘ وہاں حدیث کے الفاظ ہیں: ثم طووا صحفھم ’’پھر وہ اپنا دفتر لپیٹ دیتے ہیں‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تاخیر سے آنے والوں کی حاضری فرشتے درج نہیں کرتے۔ اس عدم اندراج سے نام مراد ہیں یا ثواب؟ طووا صحفہم کا مطلب کیا ہے؟
حافظ صاحب نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ روز مرہ کے فرشتے کراماً کاتبین اور ہیں اور جمعہ کے اور۔ جمعہ کے فرشتوں کی ایک خاص جماعت ہے۔ یہ فرشتے صرف جمعہ کے دن حاضر ہوتے ہیں، لہٰذا بعد از شروع خطبہ آنے والوں کی حاضری کا اندارج نہیں کرتے، بلکہ عام کراماً کاتبین کرتے ہیں۔ (قافلہ حدیث محمد اسحاق بھٹی، ص:553)
دوسرا خواب:
امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں یہ باب قائم کیا ہے:
’’باب ما یذکر فی الفخذ‘‘ فخذ عربی میں ران کو کہتے ہیں۔ سوال ہے کہ ران انسانی ستر میں شامل ہے کہ نہیں؟ یہ سوال اکثر ذہن میں گردش کرتا رہتا ہے۔ ایک دفعہ خواب میں حافظ عبد اللہ روپڑیؒ سے ملاقات ہوئی۔ مولانا یوسفؒ نے یہ مسئلہ ان سے دریافت کیا۔ یہ مسئلہ نبی کریمؐ سے روایت کرنے والے سیدنا ابن عباسؓ اور جرہدؓ اور محمد بن جحشؓ ہیں۔ ان سے مروی حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ ران ستر میں شامل ہے۔ وحدیث جرھد احوط امام بخاریؒ نے ان الفاظ کے ساتھ ان پر تبصرہ کیا ہے، جبکہ دوسری روایت سیدنا انسؓ سے مروی ہے،, جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ران انسانی ستر میں شامل نہیں۔
عام حالات میں بعض دفعہ نبی اکرمؐ کی ران مبارک اتفاقاً برہنہ ہو جاتی تھی اور سیدنا انسؓ کی روایت سندً ابھی جرہد کی روایت سے قوی ہے۔ تو حافظ صاحبؒ نے جواب میں فرمایا کہ سیدنا انسؓ کی روایت سے جو ثابت ہے وہی معتبر ہے کہ ران ستر میں شامل نہیں۔ لیکن میرا رجحان سیدنا جرہدؓ کی روایت کی طرف مائل ہے۔ اگرچہ سیدنا انسؓ کی حدیث سے قوی سند کے ساتھ ران کا ستر میں شامل نہ ہونا ثابت ہے۔ تاہم ران کو چھپانے ہی میں احتیاط ہے، تاکہ ہم اختلاف سے بچ سکیں۔
حتی یخرج من اختلافھم امام بخاریؒ کا یہی فتویٰ ہے۔ (قافلہ حدیث محمد اسحاق بھٹی، ص554.553)
یہ دونوں خواب مسائل شرعیہ سے مولانا یوسفؒ کے قلبی تعلق اور ذوق تحقیق کا نتیجہ ہیں۔
(جاری ہے)
Prev Post
Next Post