معارف ومسائل
بعض لغات کی تشریح:
زُبُر زبور کی جمع ہے، لغت میں ہر لکھی ہوئی کتاب کو زبور کہتے ہیں اور اس خاص کتاب کا نام بھی زبور ہے، جو حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔
اَدْھٰی وَ اَمَرّ… ادھی کے معنی زیادہ ہیبت ناک اور اَمَر مُرّ سے ماخوذ ہے، جس کے اصلی معنی کڑوے کے ہیں اور ہر سخت اور تکلیف دہ چیز کو بھی مُر اور اَمرّ کہہ دیا جاتا ہے۔
فِیْ ضَلٰلٍ ضلال کے معنی معروف ہیں، گمراہی اور سعر کے معنی اس جگہ جہنم کی آگ کے ہیں۔ اَشیَاعَھُم، اشیاع، شیعہ کی جمع ہے، جس کے معنی متبع اور پیروکار کے ہیں، مراد وہ لوگ ہیں جو عمل میں ان کے متبع یا مثل ہیں۔ مَقعَدِ صِدقٍ، مقعد کے معنی مجلس اور مقام کے ہیں اور صدق بمعنی حق ہے، مراد یہ ہے کہ یہ مجلس حق ہوگی، جس میں کوئی لغو و بے ہودہ بات نہ ہوگی۔
قدر کے لغوی معنی اندازہ کرنے اور کسی چیز کو حکمت و مصلحت کے مطابق اندازے سے بنانے کے ہیں، اس آیت میں یہ لغوی معنی بھی مراد ہوسکتے ہیں کہ حق تعالیٰ جل شانہ نے عالم کی تمام مخلوقات کو اور اس کی ہر نوع و صنف کو ایک حکیمانہ اندازہ سے بڑا چھوٹا اور مختلف ہیئت و صورت میں بنایا ہے، پھر ہر نوع و صنف کے ہر فرد کی تخلیق میں بھی حکیمانہ انداز بڑی حکمت کے ساتھ رکھا ہے، انگلیاں سب یکساں نہیں بنائیں، طول میں فرق رکھا، ہاتھوں پاؤں کے طول و عرض اور ان کے کھلنے بند ہونے سمٹنے اور پھیلنے کے لئے اسپرنگ لگائے، ایک ایک عضو کے ایک ایک جز کو دیکھو تو قدرت و حکمت خداوندی کے عجیب و غریب دروازے کھلتے نظر آنے لگیں اور اصطلاح شرع میں لفظ قدر بمعنی تقدیر الٰہی بھی استعمال ہوتا ہے اور اکثر ائمہ تفسیر نے بعض روایات حدیث کی بناء پر اس آیت میں قدر سے تقدیر الٰہی مراد لی ہے۔
مسند احمد، مسلم، ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ مشرکین قریش ایک مرتبہ رسول اقدسؐ سے مسئلہ تقدیر کے متعلق مخاصمت کرنے لگے، تو اس پر یہ آیت قرآن نازل ہوئی، اس معنی کے اعتبار سے مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ ہم نے تمام عالم کی ایک ایک چیز کو اپنی تقدیر ازلی کے مطابق بنایا ہے، یعنی ازل میں پیدا ہونے والی چیز اور اس کی مقدار زمانہ و مکان اور اس کے بڑھنے گھٹنے کا پیمانہ عالم کے پیدا ہونے سے پہلے ہی لکھ دیا گیا تھا، جو کچھ عالم میں پیدا ہوتا ہے، وہ اسی تقدیر ازلی کے مطابق ہوتا ہے۔
تقدیر کا یہ مسئلہ اسلام کا قطعی عقیدہ ہے، اس کا منکر کافر، اور جو فرقے بتاویل انکار کرتے ہیں، وہ فاسق ہیں۔ امام احمد، ابو داؤد، طبرانی نے حضرت ابن عمرؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اقدسؐ نے فرمایا کہ ہر امت میں کچھ لوگ مجوسی ہوتے ہیں، اس امت محمدیہ کے مجوسی وہ لوگ ہیں جو تقدیر کا انکار کرتے ہیں، ایسے لوگ بیمار پڑیں تو ان کی بیمار پرسی کو نہ جاؤ اور مر جائیں تو ان کے کفن دفن میں شریک نہ ہو۔ (از روح المعانی) تمت سورۃ القمر۔ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post