سید ارتضی علی کرمانی
پیر صاحبؒ کے جوابات کو ملا حظہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی دنیادار یا مصلحت پسند شخص کے جوابات نہیں ہو سکتے ۔ حضرت صاحب نے انگریزوں کو خوب اچھی طرح یاد دلایا کہ اگر بات دعا کروانے کی ہے تو کیا تمہارے مذہب میں مجرم یا ان کے اہل خانہ پادریوں سے دعا نہیں کرواتے اور اگر کسی کو کھانا کھلا دیا جائے تو کیا بندہ مجرم گردانا جائے گا۔ انہی ایام میں ایک مسلمان آفیسر نے حاضر خدمت ہوکر کہا کہ مجھے اس سے قبل آپ سے ملاقات کا شرف حاصل نہیںہے، مگر میں عرصہ دراز سے آپ کا غائبانہ معتقد ہوں اور آج یہ بتانے کے لیے حاضر ہوا ہوں کہ حکومت برطانیہ کے پاس یہ رپورٹ کی گئی ہے کہ آپ کو اس ملک سے جلاوطن کرنے ارادہ رکھتی ہے۔ اسے معلوم نہیں کہ رب تعالیٰ کی قدرت کے خود اس کے متعلق کیا ارادے ہیں۔ دنیا نے دیکھا کہ اس واقعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد برطانیہ اور جرمنی کی جنگ چھڑ گئی، جو 1914ء سے 1918ء تک جاری رہی۔ یوں جلا وطنی کی مسل یونہی پڑی رہی۔ مگر حضرت پیر سید مہر علی شاہؒ کو رنج ضرور ہوا۔ آپ کے دلی جذبات ان اشعار میں ملاحظہ فرمائیے، جو آپؒ نے حضرت عبد القادر جیلانیؒ کی خدمت میں عرض کیے۔
رو رو لکھئے چھٹیے درداں بھرئیے پتہ پچھیں بغداد دے واسیاں وا دیہویں جانیہڑا دکھاں بھریا اینہا اکھیاں درس پیاسیاں وا آہیں سولاں بھریاں، سینے سڑے وچوں نکلن حال ایہہ سدا اداسیاں وا تیرے مڈھ قدیم دے بردیاں نوں لوک دس دے خوف چیڑا سیاں وا دستگیرؒ کر مہر توں مہر علی اتے، کون باجھ تیرے اللہ راسیاں وا
ان اشعار کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو اگر دکھ پہنچا تو آپ حضرت غوث الاعظمؒ کی خدمت میں اپنے جذبات کو کس قدر المناک طریقہ سے پہنچایا کہ یا حضرت ’’لوک دس سے خوف چیڑا سیاں وا، ہم تو آپ کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں، یہ لوگ ہم کو بار بار کیوں تنگ کرتے ہیں۔ سچ ہے کہ آدمی پریشانی میں اپنے پیاروں کو ہی یاد کرتا ہے۔‘‘
انہی ایام میں جب کہ انگریزوں کا حضرت صاحبؒ کا دہلی دربار میں شمولیت سے انکار ابھی تک بھولا نہیں تھا، ایک مرتبہ ایس پی ضلع راولپنڈی گولڑہ شریف آیا اور حضرت صاحبؒ سے کہنے لگا کہ موضع میر ابادیہ وغیرہ کے بعض لوگ ڈاکہ زنی اور قتل کے مقدمات میں مفرور ہیں اور ہماری اطلاع کے مطابق وہ آپ کے مرید ہونے کی حیثیت سے آپ کی خانقاہ میں پناہ لیتے ہیں اور اپنا اسلحہ وغیرہ بھی یہاں رکھتے ہیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ
’’میرے پاس لوگ دعا اور دینی ہدایت کے لیے آتے ہیں، میں ان کو نیکی کا امر دیتا ہوں اور گناہ کے کاموں سے منع کرتا ہوں۔ جو یہاں ٹھہرتے ہیں بحیثیت مہمان ان کو تواضع کی جاتی ہے، مجھے معلوم نہیں ہوتا کہ ان میں کسی شخص کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ اگر کوئی مفرور یہاں آجائے یا اسلحہ لے آئے تو آپ اس کو پکڑ لیجئے۔
ایک اور بات بھی سن لیں اور اپنی سرکار کو پہنچا دیں کہ میں خوب جانتا ہوں کہ تمہاری نیت میرے متعلق کیا ہے، لیکن یاد رکھنا کہ یہ عزت جو مجھے ملی ہوئی ہے، اس کے دینے والے تم نہیں ہو، کوئی اور ہے اور اگر اس عزت کے دینے والے تم نہیں ہو تو اس کے لینے والے بھی تم نہیں ہو سکتے۔ اگر لے گا تو وہی لے گا جس نے دے رکھی ہے۔‘‘
اس ملاقات سے پہلے آپ کو آئی جی پولیس رائے صاحب دیوی دیال کی چھٹی ملی تھی کہ حضرت صاحبؒ مورخہ 27 دسمبر 1913ء کو ایس پی کوٹھی پر انہیں ملیں۔ جس کے جواب میں حضرت صاحبؒ نے لکھوایا کہ میں بوجہ مصروفیت اپنے کاموں کے صرف نماز عصر کے بعد فارغ ہوتا ہوں، اس لیے حاضری سے معذور ہوں۔ صاحب بہادر مجھ سے جس امر کی دریافت کرنا چاہیں خود تشریف لا کر یا بوساطت عملہ ماتحت دریافت فرما سکتے ہیں، چنانچہ ایس پی کو خود ملاقات کے لیے آنا پڑا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post