سیدنا عمرؓ روتے ہوئے کہہ رہے تھے: حضور! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان آپ کی عمر کے بہت تھوڑے سے حصے میں (کہ نبوت کے بعد تیئس ہی سال ملے) اتنا بڑا مجمع آپؐ پر ایمان لایا کہ حضرت نوحؑ کی طویل عمر (ایک ہزار برس) میں اتنے آدمی مسلمان نہ ہوئے (کہ حجۃ الوداع میں ایک لاکھ چوبیس ہزار تو صحابہؓ تھے اور جو لوگ غائبانہ مسلمان ہوئے حاضر نہ ہو سکے، ان کی تعداد تو خدا ہی کو معلوم ہے) آپ ؐ پر ایمان لانے والوں کی تعداد بہت زیادہ سے زیادہ ہے۔ (بخاری کی مشہور حدیث عرضت علی الامم میں ہے کہ حضور اکرمؐ نے اپنی امت کو اتنی کثیر مقدار میں دیکھا کہ جس نے سارے جہاں کو گھیر رکھا تھا اور حضرت نوحؑ پر ایمان لانے والے بہت تھوڑے ہیں۔
حضور! میرے ماں باپ آپ پر قربان، اگر آپ اپنے جیسوں ہی کے ساتھ نشست و برخواست فرماتے تو آپ ہمارے پاس کبھی نہ بیٹھتے اور اگر آپ نکاح نہ کرتے مگر اپنے ہی ہم مرتبہ سے، تو ہمارے میں سے کسی کے ساتھ بھی آپ کا نکاح نہ ہو سکتا تھا اور اگر آپ اپنے ساتھ کھانا نہ کھلاتے مگر اپنے ہی ہمسروں کو تو ہم میں سے کسی کو اپنے ساتھ کھانا نہ کھلاتے، بیشک آپؐ نے ہمیں اپنے پاس بٹھایا، ہماری عورتوں سے نکاح کیا، ہمیں اپنے ساتھ کھانا کھلایا، بالوں کے کپڑے پہنے، (عربی) گدھے پر سواری فرمائی اور اپنے پیچھے دوسرے کو بٹھایا اور زمین پر (دستر خوان بچھا کر) کھانا کھایا اور کھانے کے بعد اپنی انگلیوں کو (زبان سے) چاٹا اور یہ سب امور آپ نے تواضع کے طور پر اختیار فرمائے۔ حق تعالیٰ آپ پر درود و سلام بھیجے۔
یَا رَبِ صَلِّ وَسَلم دَآئِما اَبَدا
عَلٰی حبِیْبِکَ خَیرِ الخَلقِ کُلّھِمِ
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Next Post