سید ارتضی علی کرمانی
دنیا اور حکمرانوں سے بے رغبتی اولیا کا خاص وتیرہ رہا ہے۔ ایک واقعہ کچھ اسی انداز کا ملاحظہ فرما ئیں۔ ایک مرتبہ ایسا کیا کہ ایک انگریز جو پہلے فوج میں افسر رہ چکا تھا، راولپنڈی میں ڈپٹی کمشنر مقرر ہوا۔ اس نے دیہاتی دورے کے سلسلے میں گولڑہ شریف کے قریب اپنا کیمپ لگوایا۔ اس کا خیال تھا کہ حضرت صاحبؒ سلام کرنے ضرور آئیںگے، مگر آپ سلام کیلئے نہ گئے۔ اس نے اپنا کیمپ دربار شریف سے بالکل قریب ایسی جگہ لگوایا جو آپ کی سواری کا راستہ تھا۔ ملک گلاب خان جن کا تعلق حسن ابدال سے تھا ،کے علاوہ دیگر ارادت مندوں نے بھی آپؒ سے عرض کیا کہ مقامی افسر ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آج عصر کے بعد جب آپ سواری کی غرض سے تشریف لے جائیں تو چند منٹ کے لیے توقف فرما کر ڈپٹی کمشنر صاحب سے ملتے جائیں، مگر آپؒ نے اس روز سواری کے وقت اپنا راستہ ہی بدل لیا۔
ارباب اختیار حضرت پیر صاحبؒ کی اثر پذیری کو ان علاقوں میں جانتے تھے کہ آپ کو تنگ کرنا یہاں کسی طرح مناسب نہیں۔ چنانچہ ڈپٹی کمشنر واپس چلا گیا اور راولپنڈی پہنچتے ہی آپ کو ایک روبکار بھیجی کہ آپ پیر کے دن تین بجے میری کوٹھی پر آکر مجھے ملیں۔ حضرت نے اس روبکار کے پیچھے لکھا کہ ’’ملنے کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ مجھے آپ کے ساتھ کوئی کام ہو، سو مجھے تو آپ کے ساتھ کوئی کام نہیں اور دوسری وجہ یہ کہ آپ کو مجھ سے کوئی کام ہو، اگر ایسی کوئی بات ہے تو پھر آپ کو یہاں میرے پاس آنا چاہئے، کیوں کہ ہمیشہ ضرورت مند ہی کو جانا پڑتا ہے۔ ایک غیر ضرورت مند کو حاضری کا حکم دینا نظر ثانی کا محتاج ہے۔‘‘
ڈپٹی کمشنر نے بیرسٹر قاضی سراج الدین کو جو کہ ان دنوں سرکاری وکیل تھے، بلوایا اور مشورہ لیا۔ انہوں نے سمجھایا کہ آپ ایک ایسے شخص سے الجھنا چاہتے ہیں، جو دنیا سے کوئی تعلق نہیں رکھتا، خدا کے سوا دنیا اور مافیہا سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ نیز ایک جنگ کو (جنگ عظیم اول کو) بمشکل ختم کیا ہے اور دوسری کو بلاوجہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات ڈپٹی کمشنر کو سمجھ میں آگئی۔ اس نے حضرت صاحبؒ کو مطلع کیا کہ میں آپ سے خود کسی دن ملاقات کے لیے آؤں گا۔
کچھ دنوں کے بعد ڈپٹی کمشنر اپنی بیوی اور اپنی بیٹی کے ہمراہ حضرت صاحبؒ سے ملنے آیا۔ حضرت صاحب کے صاحبزادے قبلہ بابوجیؒ اور ملک گلاب خان نے خانقاہ سے کچھ آگے ان لوگوں کا استقبال کیا۔ ڈپٹی کمشنر نے اس سے کہا کہ ’’ہم اگر بادشاہ ہیں تو پیر صاحب بھی شہنشاہ ہیں، اگر وہ ہمیں ملنے نہیں آئے تو ہم ان سے ملنے کے لیے خود آگئے ہیں۔‘‘
ملاقات کے دوران حضرت صاحب نے ڈپٹی کمشنر سے ہاتھ ملایا، مگر جب اس کی بیوی نے ہاتھ آگے کیا تو حضرت صاحب نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ انگریز عورت نے اپنے خاوند سے کہا کہ شاید میں بہت گنہگار ہوں، اسی لیے پیر صاحب نے مجھ سے ہاتھ نہیں ملایا۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے، بلکہ مذہب اسلام میں غیر عورتوں سے ہاتھ ملانے کی اجازت نہیں۔ ڈپٹی کمشنر کی بیٹی کہنے لگی، ہاں بے شک بائبل میں بھی یہی حکم ہے۔
نشست کے دوران ڈپٹی کمشنر نے پوچھا کہ آیا آپ کے پاس کوئی جاگیر وغیرہ ہے؟ تو آپؒ نے فرمایا کہ مشرق سے مغرب ہماری جاگیر ہے، یہ سارا ملک ہم کو جاگیر میں ملا ہے۔ لڑکی نے آپؒ کے ہاتھ والی تسبیح کے متعلق دریافت کیا کہ یہ کیا چیز ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ اس پر میں اپنے مالک کا نام لیتا ہوں۔ لڑکی کہنے لگی کہ آپ کا مالک آپ کو تنخواہ کیا دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ’’آپ لوگوں کی طرح تنخواہ مقرر نہیں بلکہ میرا مالک میری تمام ضروریات کے مطابق عطا کرتا ہے اور بے حد و حساب عطا کرتا ہے۔‘‘
یہ سن کر لڑکی نے پوچھا کہ کیا آپ جو کچھ خدا سے مانگیں، آپ کو مل جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر وہ چیز ہمارے لیے بہتر ہو تو عطا فرماتا ہے اور اگر اس میں ہمارا نقصان ہو تو نہیں عطا فرماتا، جیسے معصوم بچہ روٹی کو ہاتھ مارتا ہے، مگر ماں اسے دودھ پلاتی ہے۔ کیوں کہ بچے کا معدہ روٹی کو ہضم نہیں کر سکتا۔ گرمیوں کا موسم تھا، لڑکی کہنے لگی کہ اگر ایسی بات ہے تو آپ بارش کے لیے دعا کریں، کیونکہ آج کل بارش مفید معلوم ہوتی ہے۔
حضرت صاحبؒ اس لڑکی کی اس دانائی پر مسکرائے اور فرمایا کہ ہم دعا کرتے ہیں۔ اگر بارش مفید ہے تو ہو جائے گی، پھر تمام حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ بھی دعا کریں۔ دنیا نے دیکھا کہ اسی روز بارش ہوئی، ڈپٹی کمشنر، اس کی بیوی اور بیٹی آپ کے رویہ اور اخلاق سے بہت متاثر ہوئی۔
کئی برس کے بعد ایک انگریز انگلینڈ سے آکر حضرت صاحبؒ سے ملا اور کہنے لگا کہ میں علاقہ کھوڑ میں تیل اور پٹرول کی تلاش میں آیا ہوں، لندن میں مجھے فلاں صاحب نے مجھے بتایا کہ اس کام کو شروع کرنے سے پہلے آپ سے اجازت ضرور لے لوں اور کامیابی کے لیے دعا کرلوں۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہاں وہ صاحب میرے آشنا تھے، اس کے بعد پھر دعا فرمائی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post