سرفروش

0

عباس ثاقب
ایک گندا نالا پھلانگ کر ہم دونوں ایک اتنی پتلی گلی میں داخل ہوئے جس میں دو افراد بھی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے تھے۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’ان ہی دنوں ہندوستان کی تقسیم کا شور اٹھا تو مٹھو سنگھ کے ساتھ لگ گیا، تاکہ مال کمانے کے ساتھ مفت میں ہوس پوری کرنے کے مواقع سے بھی فائدہ اٹھا سکے۔ دولت کمانے کے آسان مواقع کے حوالے سے بمبئی کی شہرت سنی تو یہاں آگیا اور گزشتہ چھ سات سال سے یہیں ہے۔ دولت تو خیرکیا اکٹھی کرتا، البتہ ٹیکسی چلانے سے اتنی کمائی ہو جاتی ہے کہ پینے پلانے سمیت اپنے گندے مشاغل پورے کر سکے‘‘۔
اس نے ایک خستہ حال سے مکان کے سامنے رک کر دروازے پر دستک دی۔ پہلی دستک پر کوئی ردِ عمل سامنے نہ آنے پر اس نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ بالآخر اندر سے کسی نے کمزور سے لہجے میں آواز لگائی۔ ’’کیہڑا اے بھائی؟ بوہا کھلا اے، اندر لنگ آ!‘‘۔
اسلم نے دروازہ دھکیلا تو وہ واقعی کھلتا چلا گیا۔ ہم ایک تنگ سے گلیارے سے گزر کر آگے بڑھے تو ایک کمرہ سامنے تھا۔ چھوٹے صحن میں ایک باورچی خانہ بھی تھا، لیکن برائے نام روشنی میں ایسے کوئی آثار دکھائی نہ دیئے کہ اسے کبھی کھانا پکانے کے لیے استعمال کیا گیا ہوگا۔ ہم بند دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے تو کمرے میں موجود دو چارپائیوں میں سے ایک پر لگ بھگ ساٹھ سال کا ایک دبلا پتلا، خستہ حال شخص غلیظ سی رضائی میں لپٹا دکھائی دیا۔ دوسری چارپائی پر بستر تو کیا، کوئی چادر بھی نہیں تھی۔ بہرحال ہم دونوں نے لحاف میں لپٹے شخص سے ہاتھ ملایا اور اس کھری چارپائی پر بیٹھ گئے۔
اسلم نے طبیعت کا حال پوچھنے سے گفتگو کا آغاز کیا۔ ’’کیوں بھئی گربچن، تم تو مہینے بھر سے ایک دم سیٹ چل رہے تھے؟ یہ اچانک طبیعت کیوں بگڑ گئی؟‘‘۔
گربچن نے ہنسنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے پنجابی اور ہندی ملاجلاکر کہا ’’اوکچھ نئیں یار، طبیعت ہوجاتی ہے گڑبڑ، ہن پنڈے وچ بچیا وی تے کج نئیں‘‘۔ (اب جسم میں کچھ بچا ہوا بھی تو نہیں ہے)۔
اسلم نے قدرے سخت اور طنزیہ لہجے میں کہا۔ ’’یار جسم بے چارے کو کیوں الزام دیتے ہو۔ یہ کیوں نہیں کہتے کہ کل پھر ہاتھ روکنا بھول گئے تھے؟ یار تمہیں کتنی بار سمجھایا، تھوڑی احتیاط کیا کرو۔ تمہیں قبر میں جانے کی اتنی جلدی کیوں ہے؟‘‘۔
یہ سب سن کر وہ کھسیانی ہنسی ہنسا اور پھر نڈھال اور کمزور سے لہجے میں کہا۔ ’’ تینوں پتا اے یار، ہن کوئی فرق نئیں پیندا۔ تو بتا کیا حال ہے۔ تے اے جوان کون ہے؟‘‘۔
اسلم نے کہا۔ ’’میں بالکل ٹھیک ہوں۔ یہ میرا دوست اروند سوامی ہے۔ یہ بھی ٹیکسی چلاتا ہے۔ بہت اچھا اور عزت دینے والا لڑکا ہے۔ آج ملنے آیا تھا۔ باتوں باتوں میں تمہارا ذکر آیا تو اسے تمہاری زندگی کی داستان میں گہری دلچسپی محسوس ہوئی اور یہ ساتھ چلا آیا‘‘۔
اس موقع پر میں نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا اور پنجابی زبان میں بات شروع کی۔ ’’گربچن سدھو دراصل میں لاہور کا شرنارتھی ہوں۔ اور سچ پوچھیں تو ایک ذاتی غرض سے آپ کے پاس آیا ہوں‘‘۔
میری بات سن کر وہ کچھ چونکا اورپنجابی میں ہی مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’بولو جوان۔ میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟‘‘۔
میں نے عاجزانہ لہجے میں کہا۔ ’’دراصل مجھے آپ کی شخصیت میں اس لیے دلچسپی محسوس ہوئی کہ اسلم بھائی نے بتایا ہے کہ آپ بریگیڈیئر مٹھو سنگھ کے ساتھ کام کرچکے ہیں؟‘‘۔
میں نے اسے واضح طور پر چونکتے دیکھا۔ اس نے اثبات میں سر ہلاکر پژمردہ لہجے میں کہا۔ ’’یہ تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو، لیکن آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’دراصل میں مٹھو سنگھ جی کے بارے میںآپ سے مزید معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ دراصل میں اسی قصبے سے تعلق رکھتا ہوں، جہاں سے وہ ممبر اسمبلی بنے ہیں۔ میں نے ان کے انسان دوست کاموں کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا اور میں ان کے بارے میں بہت اچھے خیالات رکھتا تھا۔ لیکن پھر ایک قابل اعتماد دوست نے ان کے بارے میں بہت سی ایسی منفی باتیں بتائیں۔ میں آپ سے یہ تصدیق کرنا چاہتا ہوں کہ کیا وہ واقعی بُرے آدمی ہیں یا رہ چکے ہیں؟ دراصل…‘‘۔وہ تھوڑی دیر خاموش رہ کر کچھ سوچتا رہا، پھر بوجھل، لگ بھگ غم ناک لہجے میں بولا۔ ’’مجھے پتا ہے تمہیں اس کے بارے میں وہ سب باتیں بتانے والا کوئی اور نہیں، میرا دوست اسلم ہے…۔ ہاں، یہ سچ ہے۔ مٹھو برا ہی نہیں، بہت برا انسان ہے۔ وہ ہزاروں مسلمانوں کی بربادی کا مرکزی کردار رہ چکا ہے، اور اس نے بے شمار مسلمان عورتوں کی عزت خراب کی اور اس کا سب سے شرم ناک کارنامہ لٹی پٹی مسلمان عورتوں کی تجارت ہے‘‘۔میں نے کہا۔ ’’اس کا مطلب ہے یہ شخص تو سخت سزا کا مستحق ہے۔ اس نے ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر…‘‘۔گربچن نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’صرف بٹوارے کے زمانے کی بات نہیں، اس کی شیطانی حرکتوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ بلکہ اب تو مسلمانوں کے ساتھ بے سہارا اور مظلوم ہندو عورتیں بھی اس کے ظلم و ستم سے محفوظ نہیں ہیں‘‘۔اس کی بات سن کر میں تو چونکا ہی تھا، میں نے اسلم کے چہرے پر بھی حیرت کی جھلک دیکھی۔ میں نے کہا۔ ’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا؟‘‘۔اس نے اپنی سانس ہموار ہونے کا انتظارکیا اور پھر کہا۔ ’’میں چند سال پہلے اپنی آوارہ گردی کی زندگی ختم کرکے شریفانہ انداز میں باقی زندگی گزارنے کے لیے اپنے گھر واپس گیا تھا۔ لیکن میرے بھائیوں نے مجھے قبول نہیں کیا اور نہ ہی باپ کی جائیداد میں سے میرا حصہ دینے پر وہ آمادہ تھے۔ ان سے مایوس ہوکر میں دوبارہ مٹھو سنگھ کے پاس گیا تھا، جو بہت بڑا سیاست دان بن چکا تھا اور انتخاب لڑ کر اسمبلی میں جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ اس نے میری حالت پر ترس کھاکر مجھے اپنے پاس ملازم رکھ لیا، لیکن…‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More