حضرت قنبیطؑ کے مزار کا اطراف ہمیشہ دشمن سے محفوظ رہا

0

احمد خلیل جازم
حضرت قنبیطؑ کے مزار کے حوالے سے مقامی لوگوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس علاقے پر اُن کی خاص نظر کرم ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جب بھی معرکہ آرائی ہوئی، اس علاقے کو سرحد کے نزدیک ہونے کے باعث خصوصی توجہ کا باعث سمجھا گیا۔ 1947ئ، 1965ء اور 1971ء میں ہونے والے پاک بھارت معرکوں میں پاک فوج کے جانثار یہاں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے رہے۔ یہ انہی بزرگوں کی برکت کا نتیجہ ہے کہ دشمن ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکا۔ یہ علاقہ دشمن کی یلغار سے محفوظ رہا، بلکہ ہر بار پاک فوج نے دشمن کے دانت کھٹے کیے۔ اس مزار کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اتنی لمبی قبر یعنی 210 فٹ پر چھت ڈالنا آسان کام نہ تھا، لیکن نہ صرف چھت ڈال دی گئی، بلکہ اس پر ایک خوبصورت گنبد بھی تعمیر کیا گیا، جو دور سے دکھائی دیتا ہے۔ حافظ شمس الدین گلیانوی نے اپنے قلمی نسخے میں انبیائے کرامؑ، صحابہ کرامؓ اور غازیوں، شہیدوں کا جو شجرہ بیان کیا ہے، اس میں حضرت قنبیطؑ کا نام نامی صفحہ نمبر 329 پر نمبر شمار 500 کے تحت درج ہے، اور جائے مدفن بڑیلہ شریف درج ہے۔
فضل حسین نے مزار پر مزید واقعات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ’’کچھ برس پہلے کا واقعہ ہے کہ گجرات کے ساتھ ایک گائوں کھیپڑاں والا ہے، وہاں فضل حسین شاہ صاحب کا مدرسہ تھا۔ وہاں سے ایک نوجوان بچی عصر کے وقت پیدل چلی اور سحری کے وقت مزار پر آکر گر پڑی۔ مجھے مزار پر بیٹھی کچھ خواتین نے آکر بتایا کہ حاجی صاحب، اس طرح ایک نوجوان بچی آکر بے ہوش ہوگئی ہے، جس کے ساتھ کوئی نہیں ہے۔ چونکہ اس طرح کے واقعات پہلے بھی ہوچکے ہیں، لیکن ان بچیوںکے ہمراہ ان کے گھر سے کوئی نہ کوئی ہوتا تھا۔ یہ نوجوان لڑکی اکیلی تھی، اس لیے یہ بات کافی تشویش کا باعث تھی۔ میں نے ان عورتوں سے کہا کہ اسے فی الحال وہیں رہنے دو، میں دعا ختم کرکے آتا ہوں۔ میں نے حضرت صاحب سے لڑکی کے حفظ و امان کی دعا مانگی اور پھر اس کی جانب چل پڑا۔ جب میں نے اس لڑکی کو دیکھا تو وہ کم و بیش پچیس چھبیس برس کی ہوگی۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد اسے ہوش آگیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ بیٹا تمہارا کیا نام ہے۔ تو وہ مردانہ آواز میں بولی کہ میرا نام احد ہے۔ میں نے کہا کہ بیٹا احد تو اللہ نام ہے، تم ادھر کیسے بھول پڑیں۔ لیکن وہ خاموش رہی اور مجھے گھورنے لگی۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ بچی کو کوئی اور طاقت یہاں لے آئی ہے۔ میں نے اسے کہا کہ تم اس بچی کو یہاں کیوں لے کر آئے ہو۔ تو وہ کہنے لگا کہ شاہ صاحب سے ناراض ہوا ہوں اور عصر کے وقت وہاں سے نکل کھڑا ہوا، اب میں نے واپس نہیں جانا، کیونکہ انہوں نے مجھے مارنا ہے، اب میں یہیں رہوں گا۔ میں نے کہا کہ نہیں تم نے واپس جانا ہے، تمہاری حاضری یہاں ہوچکی ہے۔ کہنے لگا کہ نہیں میں یہیں رہوں گا۔ میں نے اسے دوبارہ کہا کہ بیٹا تمہاری حاضری ہوگئی ہے، لیکن وہ کسی صورت ماننے کو تیار نہ تھا۔ پھر میں نے ذرا سختی سے کہا کہ دیکھو میری بات مانو، تمہیں اندازہ بھی ہے کہ تم کہاں آئے ہوئے ہو، تمہاری حاضری یہاں ہوچکی ہے اور یہاں رہنے کی تمہیں اجازت نہیں۔ ایک تو نوجوان لڑکی کو ساتھ لے آئے ہو، اس کی وجہ سے اس کے وارث (شاہ صاحب)، اس کے گھر والے پریشان ہوں گے اور یہ بات صاحب مزار کو کسی صورت قبول نہیں ہوگی۔ بہرحال اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ اس بات پر خاموش ہوگیا۔ چنانچہ میں نے اسے آہستہ سے پکڑ کر مزار سے باہر نکالا۔ اس سے کہا کہ اب بتائو کہاں سے آئے ہو اور کہاں جانا ہے۔ اس نے شاہ صاحب اور ان کے گائوں کا بتایا، پھر ان کا نمبر بتایا۔ میں نے اسی بچی کا فون لیا اور شاہ صاحب کا نمبر ملایا۔ پو پھوٹ چکی تھی، شاہ صاحب نے فون اٹھا، اور مجھ سے پوچھا کون بول رہا ہے۔ میں نے کہا کہ بڑیلہ شریف ستّر گز مزار سے بات کر رہا ہوں۔ تو شاہ صاحب نے فوری طور پر کہا کہ مجھے امید ہے کہ بچی آپ کے پاس پہنچ گئی ہوگی اور خدا کے فضل سے خیریت سے ہوگی۔ میں نے جواب دیا کہ بالکل پہنچ چکی ہے اور خیریت سے ہے۔ شاہ صاحب نے کہا کہ اب مہربانی فرمائیں اور بچی کو بہ حفاظت واپس پہنچائیں کہ میں اس کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان ہوں۔ میں نے شاہ صاحب سے کہا کہ میں بس پر آئوں گا، میرے پاس اپنی گاڑی نہیں ہے۔ انشاء اللہ تین گھنٹے کے اندر آپ کے پاس پہنچ جائوں گا۔ چنانچہ اس کو بس میں بٹھا کر چل پڑا۔ مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ یہ گائوں کہاں ہے، لیکن جیسے ہی سروس روڈ سے بس اڈے کی جانب مڑنے گی، اس بچی نے مجھے کہا، اے حاجی صاحب، یہیں اترنا ہے۔ چنانچہ وہاں اتر گئے۔ وہاں سے ایک رکشے پر بیٹھ کر وہ بچی خود بخود مجھے شاہ صاحب کے مدرسے پر لے گئی۔ مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ کون سا گھر شاہ صاحب کا ہے، وہ خود ہی ان کے درواز ے پر پہنچ گئی۔ شاہ صاحب جیسے دروازے سے لگے بیٹھے تھے، فوری باہر آئے اور بیٹی کو پیار کرنے لگے۔ وہ میرے اس قدر شکر گزار ہوئے کہ مجھے شرم محسوس ہونے لگی۔ اسی طرح کے بے شمار واقعات یہاں وقوع پذیر ہوتے ہیں‘‘۔گجرات محلہ اسلام پورہ میں نوجوان محقق فصیح جرال سے اس موضوع پر بات کرنے کے لیے پہنچے تو انہوں نے کہا کہ ’’کتاب گجرات بہ عہد قدیم و جدید‘‘ 1968ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کے حوالے سے ایک کتاب ’’نوگزے یا پیغمبر‘‘ از حامد حسین سید میں ڈاکٹر احمد حسین قریشی کے حوالے سے درج ہے کہ ’اس خطہ (جس کو اب ضلع گجرات کہتے ہیں) کی تاریخ اس قدر پرانی ہے جس قدر خود بنی نوع انسان کی تاریخ پر قدامت کا گمان ممکن ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تخلیق آدمؑ سے پہلے زمین پر دیوئوں اور جنوں کی مخلوق آباد تھی۔ تاریخ شاہاں گوجر اور کرانیکلز آف گجرات میں یہ روایت درج ہے کہ پبی کی پہاڑیوں میں اکثر انسانی ہڈیاں برآمد ہوتی رہتی ہیں، جو عام انسانوں کی ہڈیوں سے زیادہ بڑی ہوتی ہیں۔ یہ ہڈیاں دیوئوں اور جنوں کی تصور کی جاتی ہیں۔ کیپٹن ایلیٹ انہیں جن اور راکشسوں کی ہڈیاں بتاتے ہیں۔ ہڈیوں کی برآمد کا سلسلہ جموں، بھمبر کی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔ اس امر سے عوام کے اس عقیدے کی تائید ہوتی ہے اور یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ خطہ آدمؑ کی پیدائش سے پہلے بھی آباد نظر آتا ہے۔ مگر ہمارے نزدیک یہ قیاس درست نہیں۔ یہ ہڈیاں نسل آدمؑ کے ہی لوگوں کی ہیں، جو قدیم زمانہ میں یہاں آباد تھے، جن کی قدامت زیادہ سے زیادہ حضرت نوحؑ کے زمانے تک تصور کی جاسکتی ہے۔ اس علاقے میں یہ روایت بڑی مدت سے تواتر سے مشہور ہے کہ گجرات کے شمال مشرق کی طرف سرحدی علاقہ موضع بڑیلہ شریف میں حضرت آدمؑ کے بیٹے کی قبر موجود ہے، جن کا نام حضرت قینوط (قنبیط نہیں لکھا تھا) علیہ السلام بتلاتے ہیں۔ قبر ستّر گز لمبی ہے اور اس کی ہر سال پیمائش کی جاتی ہے۔ عجیب بات ہے کہ ہر سال یا تو قبر ستّر گز سے کچھ بڑھ جاتی ہے یا کم ہو جاتی ہے۔ یہ سلسلہ مدت مدید سے جاری ہے‘‘۔ اس حوالے سے فضل حسین کا کہنا تھا ’’چار برس قبل جب چادر چڑھائی گئی تو وہ بڑی ہوگئی تھی، باقی ہر بار کم ہی ہوتی چلی آرہی ہے‘‘۔ یعنی برس ہا برس سے قبر کی لمبائی بڑی یا چھوٹی ہوتی رہتی ہے۔ فصیح کا کہنا ہے ’’اسی کتاب میں مزید لکھا ہے کہ شیخ چوگانی متصل جلال پور جٹاں ضلع گجرات میں حضرت یوسفؑ کے بیٹے کی قبر بھی موجود ہے۔ بعض لوگ ان کا نام طہنیوتؑ بتلاتے ہیں۔ بعض کشف القبور کے ماہر اس کی تائید کرتے ہیں‘‘۔اس حوالے سے حافظ شمس الدین گلیانوی کے بارے میں تحقیق کرنا از حد ضروری ہے۔ ہم نے لالہ موسیٰ سے گلیانہ کا سفر کیا اور حافظ صاحب کے مزار پر حاضری دی۔ ان کے پوتے جو 92 برس کے ہوچکے ہیں، ان سے ملاقات کی اور ان کے دو پڑ پوتے ایک سمیع اللہ جو وہیں موجود تھے ان سے گفتگو کی اور دوسرے جو حافظ صاحب کا سارا کلام دوبارہ شائع کرارہے ہیں اور دبئی میں مقیم ہیں ان سے بھی بات چیت کی۔ حافظ صاحب کی زندگی کے حالات الگ مضمون کے متقاضی ہیں، جو انشاء اللہ جلد پیش کیا جائے گا۔ ان کی کرامات، واقعات اور احوال دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ البتہ حضرت قنبیطؑ کے حوالے سے لوگوں کی آرا اور دعوئوں پر صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہاں جو کوئی بھی دفن ہے، اس کا علم فقط اللہ رب العزت کی ذات کو ہے ۔ واللہ اعلم باالصواب۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More