قیصر چوہان
سیاسی مداخلت نے اسپورٹس فیڈریشنز کا بیٹرا غرق کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کا قومی کھیل ہاکی سمیت فٹبال اور باکسنگ کا کھیل سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے میرٹ کو نظر انداز کر کے بڑے عہدوں پر تقرریاں صرف سیاسی وفاداری کی بنیاد پر کی جاتی رہیں۔ جبکہ پاکستان میں اسپورٹس کے واحد خود کفیل ادارے پی سی بی میں بھی سفارشی افسران کا غلبہ ہے۔ دوسری جانب ملک کا سب سے بڑا کھیلوں کا ادارہ پی ایس بی بھی کرپشن الزامات کی زد میں آگیا ہے۔ ادھر مختلف کھیلوں سے وابستہ کھلاڑی انتخابات کے بعد فیڈریشن میں نوجوان قیادت کے خواہش مند اور سیاسی مداخلت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
’’امت‘‘ کی جانب سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق نئی حکومت آنے کے بعد اسپورٹس فیڈریشز میں اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ تو شروع ہوگا، لیکن سیاسی مداخلت کا پرانا سلسلہ رکنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ذرائع کے بقول تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے پی ایس بی اور پی سی بی کیلئے ایسے نمائندے چنے جائیں گے، جن کا تعلق بیوروکریسی، کاروباری شخصیات اور پارٹی کے دیرینہ وفادار کارکنوں سے ہوگا۔ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر عمران خان مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے تو پی سی بی کا چیئرمین پارٹی کا حمایت یافتہ ایک سابق جنرل ہوگا۔ جبکہ چھوٹی پوسٹیں پی ٹی آئی کے حامی سابق کرکٹرز کو دی جائیں گی۔ اسی طرح تحریک انصاف کے کپتان پاکستان اسپورٹس بورڈ میں بھی ان افراد کو عہدے دینے کے خواہاں ہیں، جنہوں نے پی ٹی آئی کی الیکشن مہم میں خوب سرمایہ کاری کی ہو۔ جبکہ باکسنگ، ہاکی اور دیگر فیڈریشن کے تمام پرانے عہدیدروں کو فارغ کرکے ایڈہاک کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔ دوسری جانب ذرائع کے بقول نواز لیگ کو اگر دوبارہ مرکز سنبھالنے کا موقع ملا تو وہ انہی افسران کو ترجیح دے گی، جو گزشتہ سیٹ اپ کا حصہ تھے۔ نون لیگ کے دور میں صرف پاکستان کرکٹ بورڈ ہی وہ واحد ادارہ تھا، جس نے نجم سیٹھی کی موجودگی میں خاطر خواہ مثبت نتائج حاصل کئے۔ ان میں پی ایس ایل کا کامیاب انعقاد، ٹیم کی بہترین کارکردگی اور پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی ہے۔ تاہم اس کے باوجود بھی بورڈ میں ایسے عناصر کی موجودگی کی اطلاعات سامنے آئیں جو میچ فکسنگ میں ملوث رہے۔ نجم سیٹھی کو اگست 2017ء میں چیئرمین پی سی بی مقرر کیا گیا تھا۔ اس سے قبل وہ دو مختلف مواقع پر پی سی بی کے عبوری چیئرمین بھی رہے۔ حیران کن طور پر نجم سیٹھی نے عہدہ سنبھالنے کے صرف 3 ماہ کے اندر صرف ایک شخص، اسلام آباد کرکٹ ایسوسی ایشن کے شکیل شیخ کو فائدہ پہنچانے کیلئے پی سی بی کے آئین میں تبدیلی کی۔ سیٹھی کا یہ بھی ماننا ہے کہ جب نئی حکومت اپنی پسند کا فرد چیئرمین پی سی بی کے طور پر تعینات کرے گی تو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اس سلسلے میں مداخلت کرے گی۔ ادھر پاکستان ہاکی فیڈریشن میں بھی نواز لیگ کے ’’مہروں‘‘ کا غلبہ ہے۔ جن پر فنڈز میں خورد برد کے سنگین الزامات بھی ہیں۔ کروڑوں روپے کے فنڈز ملنے کے باوجود ہاکی فیڈریشن کے اعلیٰ حکام پیسہ نہ ملنے کا شکوہ کرتے رہتے ہیں۔ اگست 2015ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے وزیر داخلہ احسن اقبال کے رشتہ دار بریگیڈیئر (ر) خالد کھوکھر کو اچانک پاکستان ہاکی فیڈریشن کا سربراہ مقرر کردیا گیا تھا، جس کے سبب سابق اولمپیئن اختر رسول کو عہدہ چھوڑنا پڑا۔ کیونکہ جب انہیں عہدے سے ہٹایا گیا تو اس وقت تک وہ لیگی حکومت کے پسندیدہ آدمی نہیں رہے تھے۔ ابتدا میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ خالد کھوکھر پاکستان ٹینس فیڈریشن کا سربراہ بننا چاہتے تھے، جس کیلئے انہوں نے کاغذات نامزدگی بھی جمع کرائے تھے۔ لیکن ایوان اقتدار سے سلیم سیف اللہ کا انتخاب عمل میں آ گیا اور انہیں دستبردار ہونا پڑا۔ خالد کھوکھر کی زیر قیادت پی ایچ ایف کے تین سالہ دور کا جائزہ لیا جائے، تو حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر فنڈز جاری کیے جانے کے باوجود قومی کھیل میں بہتری نہیں آسکی۔ ادھر فیفا کی حمایت کے سبب پاکستان فٹبال فیڈریشن معروف سیاستدان فیصل صالح حیات کی جاگیر بن چکی ہے۔ نواز لیگ کے دور میں تین برس تک فیفا نے سیاسی مداخلت کے سبب پاکستان فٹبال فیڈریشن پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔تاہم ایک مرتبہ پھر فیصل صالح حیات کو فٹبال فیڈریشن کا کنٹرول مل چکا ہے۔ بلوچستان کو فٹبال کھیل کے مرکز کا درجہ حاصل ہے۔ تاہم اس کے باوجود بلوچستان کو نظر انداز کرکے فٹبال کھیل کو تباہ کردیا گیا۔ جبکہ باکسنگ کا بھی حشر نشر ہو چکا ہے۔دوسری جانب سلیم سیف اللہ خان دسمبر 2014ء میں دوبارہ پاکستان ٹینس فیڈریشن (پی ٹی ایف) کے صدر منتخب ہو گئے، جس کی کسی نے بھی مخالفت نہیں کی۔ پاکستان میں ایک عرصے بعد انٹرنیشنل ٹینس کی واپسی ہوئی، لیکن نوشتہ دیوار پڑھا جا سکتا تھا، کیونکہ پاکستان کے صف اول کے دونوں ٹینس اسٹار اعصام الحق اور عقیل خان نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا اور پاکستان کی تیسرے درجے میں تنزلی ہو گئی۔ پاکستان ٹینس فیڈریشن اپنے معاملات چلانے کیلئے ایک مناسب سیکریٹری ڈھونڈنے میں ناکام رہی۔ ساڑھے تین سال کے دوران تین افراد کا اس عہدے پر تقرر کیا گیا۔ دوسری جانب پاکستان اسپورٹس بورڈ بھی نیب تحقیقات کی زد میں آگیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ایس بی کے بعض افسران پر کرپشن کے الزامات ثابت ہوچکے ہیں۔ جس کا فیصلہ الیکشن کے بعد سامنے آسکتا ہے۔ ادھر مختلف اسپورٹس سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ الیکشن کے بعد حکومت جس کی بھی بنے، فیڈریشنز اور بورڈز میں ایسے افراد تیعنات کئے جائے جو نوجوان اور کھیل کو سمجھنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہوں۔ ٹینس اسٹار اعصام الحق نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ آئندہ حکومت جس کی بھی بنے، لیکن کھلاڑیوں کو فراموش نہ کیا جائے۔کھلاڑی ملک کے سفیر ہیں۔ مضبوط فیڈریشنز کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کھلاڑیوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی نہ بنایا جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسپورٹس مینز کو فیڈریشن میں نوجوان قیادت کی ضرورت ہے۔ ادھر قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد نے قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان کیلئے ووٹ ڈالیں۔ اپنے علاقوں سے صاف ستھرے کردار کے حامل اور دیانت دار لوگوں کو ایوان میں لائیں۔ سابق کپتان شاہد خان آفریدی نے قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ ووٹ ایک امانت ہے۔ اس کا درست استعمال کریں اور اپنے ملک کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے نیک اور صاف ستھری قیادت کو منتخب کریں، جو کھلاڑیوں کو ہر مکمن سہولیات فراہم کریں۔ سابق کپتان محمد حفیظ کا کہنا تھا کہ اپنے قومی فرض کو ادا کرتے ہوئے اس شخص کو ووٹ دیں، جو پاکستان کیلئے بہتر ہو۔ ماضی کے نامور کھلاڑی وسیم اکرم نے کہا کہ پاکستان کو بدلنے کا وقت آگیا ہے۔ قومی ہاکی ٹیم کے سابق کپتان اصلاح الدین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کیلئے اپنے ووٹ کا درست استعمال کریں۔ ٹیسٹ اسپنر اقبال قاسم نے اپیل کی کہ تھوڑی دیر آرام چھوڑ کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ آپ کا ایک ووٹ ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔٭