اعداد وشمار کی فریب کاریاں (گیارہویں قسط)

0

ترجمہ: عباس ثاقب
شاید آپ کو یاد ہو کہ ایک زمانے میں دنیا کے سب سے کثیر اشاعت جریدے ریڈرز ڈائجسٹ کے ایڈیٹر نے تمباکو نوشی کے خلاف مہم چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ موصوف خود سگریٹ نوشی کے دلدادہ تھے۔ بہرحال ریڈرز ڈائجسٹ کی طرف سے سگریٹ کے متعدد مشہور برانڈز کا معروف لیباریٹریز میں کیمیائی تجزیہ کرایا گیا اور پھر نتائج میں فرداً فرداً ہر سگریٹ برانڈ میں نکوٹین سمیت تمام زہریلے کیمیائی مادوں کا تناسب جریدے میں شائع کیا گیا۔
اس تمام مشق کا تفصیلی نتیجہ یہ ظاہر ہوا کہ تمام برانڈز عملاً ایک جیسے ہیں اور اس سے قطعاً کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون سی سگریٹ پی کر اپنی صحت برباد کرنا چاہتے ہیں۔
آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ تمباکو کی تباہ کاریوں پر مشتمل اس تجزیاتی رپورٹ سے سگریٹ تیار کرنے والوں اور سگریٹس کی فروخت بڑھانے کے لیے نت نئے
نعرے سوچنے والی ایڈورٹائزنگ ایجنسیز کو زبردست دھچکا پہنچا ہوگا، کیوں کہ اس سے ان کے تمام اشتہاری دعوے مٹی میں مل گئے تھے۔
لیکن پھر کسی بقراط نے اس تمام ملغوبے میں سے بھی ایک مثبت نکتہ ڈھونڈ نکالا۔ مختلف زہریلے مادوں کی لگ بھگ یکسان مقدار رکھنے والے برانڈز میں سے بھی کوئی تو فہرست میں سب سے نیچے ہوگا اور وہ برانڈ ’’اولڈ از گولڈ‘‘ تھا۔ بس پھر کیا تھا، کمپنی کی طرف سے تار بھیجا گیا اور اس کے ساتھ ہی اشتہاروں کی تاریخ میں سب سے بڑے حروف استعمال کرکے بنائے گئے اشتہار نے ملک کے تمام اخبارات میں جگہ بنالی۔ اس اشتہار کی سرخی اور کاپی میں صرف اتنا کہا گیا تھا کہ دنیا کے سب بڑے جریدے کی طرف سے کرائے گئے ٹیسٹ کے نتائج کے مطابق ’’اولڈ از گولڈ‘‘ میں صحت کے لیے نقصان دہ مادوں کی مقدار سب سے کم ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس اشتہار میں سگریٹ میں شامل زہریلے مادوں کی تعداد اور مقدار کا کوئی ذکر نہیں تھا اور نہ یہ بتایا گیا تھا کہ ہلاکت خیزی کے اعتبار سے ’’اولڈ از گولڈ‘‘ اور باقی برانڈز میں فرق برائے نام ہی ہے۔
بالآخر ’’اولڈ از گولڈ‘‘ کے وابستگان کو باقاعدہ حکم جاری کیا گیا کہ اس طرح کی گمراہ کن اشتہار بازی روک دیں اور آئندہ بھی باز رہیں۔ لیکن اس پابندی سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ کمپنی کو جو فائدہ اٹھانا تھا، وہ پہلے ہی اٹھا چکی تھی۔
یہ حقیقت ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ ہندسوں سے خوف کھاتے ہیں۔ الفاظ کے استعمال میں لوہا منوانے والے مقررین بھی اعداد وشمار کا حوالہ دیتے ہوئے حواس باختہ نظر آتے ہیں۔ وجہ کچھ بھی رہی ہو، یہ صورتِ حال زیادہ سے زیادہ پڑھے جانے والے مصنفین اور اپنی کتابوں یا جریدوں کو مقبول بنانے کے خواہش مند پبلشرز کے لیے بھی مسائل کھڑے کردیتی ہے۔ لیکن جہاں اعداد ایک مصیبت کی حیثیت رکھتے ہوں اور الفاظ سے کام نہ چل رہا ہو، ایک اور حل موجود ہے اور وہ ہے تصویر کا سہارا لینا۔
اعداد وشمار کو تصویری شکل یعنی گراف کی صورت میں پیش کرنا ایک کامیاب ذریعہ ابلاغ سمجھا جاتا ہے۔ یہ رجحانات دکھانے میں خصوصاً مفید ہے، کیوں کہ لگ بھگ ہر کوئی کوئی پیش رفت بتاتے یا پیش گوئی کرتے گرافس میں دلچسپی رکھتا ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک گراف کے ذریعے امریکی حکومت یہ دکھانا چاہتی ہے کہ گزشتہ سال ملکی ترقی کی شرح دس فی صد رہی ہے۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ سیدھا گزشتہ چند سال میں ترقی کا گراف دکھا کر اس میں دس فی صد کا اضافہ دکھا دیں، لیکن ایسی صورت میں گراف کا تیر بمشکل دس ڈگری بلند نظر آئے گا، جو کچھ زیادہ متاثر کن نہیں ہوگا۔ تو اس مسئلے سے نمٹنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ پورے سو فی صد کا عکاسی کرنے کے بجائے گراف میں صرف دس فی صد کی اٹھان دکھائیں۔ یہ کچھ بہتر لگے گا ۔ لیکن ہو سکتا ہے امریکی صدر اسے بھی غیر متاثر کن سمجھیں۔ تو اس مسئلے کا بھی حل موجود ہے۔ گراف میں ترقی کی شرح کے اعداد و شمار کو اعشاریوں کے ساتھ ظاہر کریں، یعنی 20.2، 20.4، 20.6… اس طرح گراف کم از کم پینتالیس ڈگری کے زاویے پر بلندی کی طرف گامزن نظر آئے گا اور دیکھنے والے اس قدر حیرت انگیز ترقی سے ہکابکا رہ جائیں گے۔
1952ء میں ’’نیوز ویک‘‘ نے بھی یہ دکھانے کے لیے کہ اس کے شیئرز کی قیمت میں اکیس سال میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے، یہی حکمت عملی استعمال کی تھی۔ کولمبیا گیس کمپنی نے 1952ء میں ’’ٹائم‘‘ میگزین میں شائع ہونے والے اپنے اشتہار میں بھی یہی تکنیک آزمائی تھی۔
اسٹیل ملز بھی اجرتوں میں اضافے کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے اسی طرح کے گرافس استعمال کرتی ہیں۔ اس تکنیک کا ایک اور فریب کن استعمال اعداد و شمار اور گراف کے تیر کی بلندی میں عدم مطابقت ہے اور حربہ برس ہا برس سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مثلاً 1938ء میں حکومت کی طرف سے ایک اشتہار شائع ہوا، جس کی سرخی تھی: ’’سرکاری تنخواہوں میں زبردست اضافہ!‘‘
اس اشتہار کے مطابق امریکی سرکاری ملازمین کی ماہانہ تنخواہیں گزشتہ سال میں 19,500000 ڈالر سے بڑھ کر20,200000 ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ اس اضافے کو بلند ہوتے ایک سرخ تیر سے ظاہر کیا گیا تھا۔ لیکن قابل توجہ بات یہ تھی کہ اشتہار میں دکھایا گیا سرخ تیر اضافہ شدہ شرح کو پیچھے چھوڑتا ہوا سیدھا اوپر جاتا نظر آتا ہے، جس سے تنخواہوں میں چار فی صد سے بھی کم کا یہ اضافہ چار سو فی صد سے بھی زائد دکھائی دیتا ہے۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More